Hadith no 2297 Of Sahih Bukhari Chapter Kafalat Ke Masail Ke Bayan (Al-kafala.)

Read Sahih Bukhari Hadith No 2297 - Hadith No 2297 is from Al-kafala , Kafalat Ke Masail Ke Bayan Chapter in the Sahih Bukhari Hadees Book, which is written by Imam Bukhari. Hadith # 2297 of Imam Bukhari covers the topic of Al-kafala briefly in Sahih Bukhari. You can read Hadith No 2297 from Al-kafala in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.

صحیح بخاری - حدیث نمبر 2297

Hadith No 2297
Book Name Sahih Bukhari
Book Writer Imam Bukhari
Writer Death 256 ھ
Chapter Name Al-kafala.
Roman Name Kafalat Ke Masail Ke Bayan
Arabic Name الكفالة
Urdu Name کفالت کے مسائل کا بیان

Urdu Translation

´ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ` میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین اسلام کا پیروکار پایا۔ اور ابوصالح سلیمان نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا۔ ان سے یونس نے، اور ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیروکار پایا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا۔ جب آپ برک غماد پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات قارہ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ہوئی۔ اس نے پوچھا، ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ اور اب تو یہی ارادہ ہے کہ اللہ کی زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں۔ اس پر مالک بن الدغنہ نے کہا کہ آپ جیسا انسان (اپنے وطن سے) نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے۔ کہ آپ تو محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مجبوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اور حادثوں میں حق بات کی مدد کرتے ہیں۔ آپ کو میں امان دیتا ہوں۔ آپ چلئے اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔ چنانچہ ابن الدغنہ اپنے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر آیا اور مکہ پہنچ کر کفار قریش کے تمام اشراف کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا نیک آدمی (اپنے وطن سے) نہیں نکل سکتا۔ اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو بھی نکال دو گے جو محتاجوں کے لیے کماتا ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اور جو مجبوروں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر پر لیتا ہے۔ اور جو مہمان نوازی کرتا ہے اور جو حادثوں میں حق بات کی مدد کرتا ہے۔ چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو مان لیا۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امان دے دی۔ پھر ابن الدغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو اس کی تاکید کر دینا کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کر لیا کریں۔ وہاں جس طرح چاہیں نماز پڑھیں، اور قرآن کی تلاوت کریں، لیکن ہمیں ان چیزوں کی وجہ سے کوئی ایذا نہ دیں اور نہ اس کا اظہار کریں، کیونکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہمارے بچے اور ہماری عورتیں فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ ابن الدغنہ نے یہ باتیں جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سنائیں تو آپ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کرنے لگے۔ نہ نماز میں کسی قسم کا اظہار کرتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی دوسری جگہ تلاوت کرتے۔ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں بعد ایسا کیا کہ آپ نے اپنے گھر کے سامنے نماز کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ اب آپ ظاہر ہو کر وہاں نماز پڑھنے لگے۔ اور اسی پر تلاوت قرآن کرنے لگے۔ پس پھر کیا تھا مشرکین کے بچوں اور ان کی عورتوں کا مجمع لگنے لگا۔ سب حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے انہیں دیکھتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے ہی رونے والے تھے۔ جب قرآن پڑھنے لگتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا۔ اس صورت حال سے اکابر مشرکین قریش گھبرائے اور سب نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا۔ ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو ان سب نے کہا کہ ہم نے تو ابوبکر کو اس لیے امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کریں گے، لیکن وہ تو زیادتی پر اتر آئے اور گھر کے سامنے نماز پڑھنے کی ایک جگہ بنا لی ہے۔ نماز بھی سب کے سامنے ہی پڑھنے لگے ہیں اور تلاوت بھی سب کے سامنے کرنے لگے ہیں۔ ڈر ہمیں اپنی اولاد اور عورتوں کا ہے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ اس لیے اب تم ان کے پاس جاؤ۔ اگر وہ اس پر تیار ہو جائیں کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کریں، پھر تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر انہیں اس سے انکار ہو تو تم ان سے کہو کہ وہ تمہاری امان تمہیں واپس کر دیں۔ کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کو ہم توڑ دیں۔ لیکن اس طرح انہیں اظہار اور اعلان بھی کرنے نہیں دیں گے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابن الدغنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے وہ شرط جس پر میرا آپ سے عہد ہوا تھا۔ اب یا تو آپ اس شرط کی حدود میں رہیں یا میری امان مجھے واپس کر دیں۔ کیونکہ یہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو امان دی تھی لیکن وہ امان توڑ دی گئی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں میں تو بس اپنے اللہ کی امان سے خوش ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مکہ ہی میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھلایا گیا ہے۔ میں نے ایک کھاری نمکین زمین دیکھی ہے۔ جہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ پتھریلے میدانوں کے درمیان میں ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اظہار فرما دیا تو جن مسلمانوں نے ہجرت کرنی چاہی وہ پہلے ہی مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے۔ بلکہ بعض وہ صحابہ بھی جو حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ آ گئے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، جلدی نہ کرو، امید ہے کہ مجھے بھی جلد ہی اجازت مل جائے گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! کیا آپ کو اس کی امید ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ضرور! چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں۔ ان کے پاس دو اونٹ تھے، انہیں چار مہینے تک وہ ببول کے پتے کھلاتے رہے۔

Hadith in Arabic

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : " لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ " ، وَقَالَ أَبُو صَالِحٍ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ :أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، طَرَفَيِ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً ، فَلَمَّا ابْتُلِيَ الْمُسْلِمُونَ ، خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا قِبَلَ الْحَبَشَةِ ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَرْكَ الْغِمَادِ ، لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ وَهُوَ سَيِّدُ الْقَارَةِ ، فَقَالَ : أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَبَا بَكْرٍ ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَخْرَجَنِي قَوْمِي ، فَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسِيحَ فِي الْأَرْضِ فَأَعْبُدَ رَبِّي ، قَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ : إِنَّ مِثْلَكَ لَا يَخْرُجُ وَلَا يُخْرَجُ ، فَإِنَّكَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ، وَأَنَا لَكَ جَارٌ فَارْجِعْ ، فَاعْبُدْ رَبَّكَ بِبِلَادِكَ ، فَارْتَحَلَ ابْنُ الدَّغِنَةِ ، فَرَجَعَ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فَطَافَ فِي أَشْرَافِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ ، فَقَالَ لَهُمْ : إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَا يَخْرُجُ مِثْلُهُ وَلَا يُخْرَجُ ، أَتُخْرِجُونَ رَجُلًا يُكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَيَصِلُ الرَّحِمَ ، وَيَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَيَقْرِي الضَّيْفَ ، وَيُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ، فَأَنْفَذَتْ قُرَيْشٌ جِوَارَ ابْنِ الدَّغِنَةِ ، وَآمَنُوا أَبَا بَكْرٍ ، وَقَالُوا لِابْنِ الدَّغِنَةِ : مُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيَعْبُدْ رَبَّهُ فِي دَارِهِ ، فَلْيُصَلِّ ، وَلْيَقْرَأْ مَا شَاءَ ، وَلَا يُؤْذِينَا بِذَلِكَ ، وَلَا يَسْتَعْلِنْ بِهِ ، فَإِنَّا قَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا ، قَالَ ذَلِكَابْنُ الدَّغِنَةِ لِأَبِي بَكْرٍ ، فَطَفِقَ أَبُو بَكْرٍ يَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ ، وَلَا يَسْتَعْلِنُ بِالصَّلَاةِ ، وَلَا الْقِرَاءَةِ فِي غَيْرِ دَارِهِ ، ثُمَّ بَدَا لِأَبِي بَكْرٍ فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ وَبَرَزَ ، فَكَانَ يُصَلِّي فِيهِ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ ، فَيَتَقَصَّفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ الْمُشْرِكِينَ ، وَأَبْنَاؤُهُمْ ، يَعْجَبُونَ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا بَكَّاءً ، لَا يَمْلِكُ دَمْعَهُ حِينَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ ، فَأَفْزَعَ ذَلِكَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ، فَأَرْسَلُوا إِلَى ابْنِ الدَّغِنَةِ فَقَدِمَ عَلَيْهِمْ ، فَقَالُوا لَهُ : إِنَّا كُنَّا أَجَرْنَا أَبَا بَكْرٍ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ ، وَإِنَّهُ جَاوَزَ ذَلِكَ ، فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ ، وَأَعْلَنَ الصَّلَاةَ وَالْقِرَاءَةَ ، وَقَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا فَأْتِهِ ، فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَعَلَ ، وَإِنْ أَبَى إِلَّا أَنْ يُعْلِنَ ذَلِكَ ، فَسَلْهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْكَ ذِمَّتَكَ ، فَإِنَّا كَرِهْنَا أَنْ نُخْفِرَكَ وَلَسْنَا مُقِرِّينَ لِأَبِي بَكْرٍ الِاسْتِعْلَانَ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَأَتَى ابْنُ الدَّغِنَةِ أَبَا بَكْرٍ ، فَقَالَ : قَدْ عَلِمْتَ الَّذِي عَقَدْتُ لَكَ عَلَيْهِ ، فَإِمَّا أَنْ تَقْتَصِرَ عَلَى ذَلِكَ ، وَإِمَّا أَنْ تَرُدَّ إِلَيَّ ذِمَّتِي ، فَإِنِّي لَا أُحِبُّ أَنْ تَسْمَعَ الْعَرَبُ ، أَنِّي أُخْفِرْتُ فِي رَجُلٍ عَقَدْتُ لَهُ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : إِنِّي أَرُدُّ إِلَيْكَ جِوَارَكَ ، وَأَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَدْ أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ ، رَأَيْتُ سَبْخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لَابَتَيْنِ وَهُمَا الْحَرَّتَانِ ، فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِينَةِ ، حِينَ ذَكَرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَرَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ بَعْضُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ ، وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَلَى رِسْلِكَ ، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : هَلْ تَرْجُو ذَلِكَ بِأَبِي أَنْتَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَصْحَبَهُ ، وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ .

English Translation

Narrated Aisha: (wife of the Prophet) Since I reached the age when I could remember things, I have seen my parents worshipping according to the right faith of Islam. Not a single day passed but Allah's Apostle visited us both in the morning and in the evening. When the Muslims were persecuted, Abu Bakr set out for Ethiopia as an emigrant. When he reached a place called Bark-al-Ghimad, he met Ibn Ad-Daghna, the chief of the Qara tribe, who asked Abu Bakr, "Where are you going?" Abu Bakr said, "My people have turned me out of the country and I would like to tour the world and worship my Lord." Ibn Ad- Daghna said, "A man like you will not go out, nor will he be turned out as you help the poor earn their living, keep good relation with your Kith and kin, help the disabled (or the dependents), provide guests with food and shelter, and help people during their troubles. I am your protector. So, go back and worship your Lord at your home." Ibn Ad-Daghna went along with Abu Bakr and took him to the chiefs of Quraish saying to them, "A man like Abu Bakr will not go out, nor will he be turned out. Do you turn out a man who helps the poor earn their living, keeps good relations with Kith and kin, helps the disabled, provides guests with food and shelter, and helps the people during their troubles?" So, Quraish allowed Ibn Ad-Daghna's guarantee of protection and told Abu- Bakr that he was secure, and said to Ibn Ad-Daghna, "Advise Abu Bakr to worship his Lord in his house and to pray and read what he liked and not to hurt us and not to do these things publicly, for we fear that our sons and women may follow him." Ibn Ad-Daghna told Abu Bakr of all that, so Abu- Bakr continued worshipping his Lord in his house and did not pray or recite Qur'an aloud except in his house. Later on Abu Bakr had an idea of building a mosque in the court yard of his house. He fulfilled that idea and started praying and reciting Qur'an there publicly. The women and the offspring of the pagans started gathering around him and looking at him astonishingly. Abu Bakr was a softhearted person and could not help weeping while reciting Qur'an. This horrified the pagan chiefs of Quraish. They sent for Ibn Ad-Daghna and when he came, they said, "We have given Abu Bakr protection on condition that he will worship his Lord in his house, but he has transgressed that condition and has built a mosque in the court yard of his house and offered his prayer and recited Qur'an in public. We are afraid lest he mislead our women and offspring. So, go to him and tell him that if he wishes he can worship his Lord in his house only, and if not, then tell him to return your pledge of protection as we do not like to betray you by revoking your pledge, nor can we tolerate Abu Bakr's public declaration of Islam (his worshipping). `Aisha added: Ibn Ad-Daghna came to Abu Bakr and said, "You know the conditions on which I gave you protection, so you should either abide by those conditions or revoke my protection, as I do not like to hear the 'Arabs saying that Ibn Ad-Daghna gave the pledge of protection to a person and his people did not respect it." Abu Bakr said, "I revoke your pledge of protection and am satisfied with Allah's protection." At that time Allah's Apostle was still in Mecca and he said to his companions, "Your place of emigration has been shown to me. I have seen salty land, planted with date-palms and situated between two mountains which are the two ,Harras." So, when the Prophet told it, some of the companions migrated to Medina, and some of those who had migrated to Ethiopia returned to Medina. When Abu Bakr prepared for emigration, Allah's Apostle said to him, "Wait, for I expect to be permitted to emigrate." Abu Bakr asked, "May my father be sacrificed for your sake, do you really expect that?" Allah's Apostle replied in the affirmative. So, Abu Bakr postponed his departure in order to accompany Allah's Apostle and fed two camels which he had, with the leaves of Samor trees for four months.

Your Comments/Thoughts ?

کفالت کے مسائل کا بیان سے مزید احادیث

حدیث نمبر 2290

´اور ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے محمد بن حمزہ بن عمرو الاسلمی نے اور ان سے ان کے والد (حمزہ) نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے` (اپنے عہد خلافت میں) انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ (جہاں وہ زکوٰۃ وصول کر رہے تھے وہاں کے) ایک شخص نے اپنی بیوی کی باندی ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 2292

´ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ادریس نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہ` (قرآن مجید کی آیت «ولكل جعلنا موالي‏») کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ (مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 2293

´ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ` جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں آئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھائی چارہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کرایا تھا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 2295

´ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں نماز پڑھنے کے لیے کسی کا جنازہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ کیا اس میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 2297

´ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ` میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین اسلام ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 2296

´ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن علی باقر سے سنا، اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بحرین سے (جزیہ کا) مال ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 2291

´ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 2294

´ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ` میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا، اسلام میں جاہلیت والے (غلط قسم کے) ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 2298

´ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کسی ایسی میت کو لایا جاتا جس پر کسی کا قرض ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ..مکمل حدیث پڑھیئے