Hadith no 3700 Of Sahih Bukhari Chapter Nabi SAW Ke Ashaab Ki Fazeelat (The Virtues And Merits Of The Companions Of The Prophet.)

Read Sahih Bukhari Hadith No 3700 - Hadith No 3700 is from The Virtues And Merits Of The Companions Of The Prophet , Nabi SAW Ke Ashaab Ki Fazeelat Chapter in the Sahih Bukhari Hadees Book, which is written by Imam Bukhari. Hadith # 3700 of Imam Bukhari covers the topic of The Virtues And Merits Of The Companions Of The Prophet briefly in Sahih Bukhari. You can read Hadith No 3700 from The Virtues And Merits Of The Companions Of The Prophet in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.

صحیح بخاری - حدیث نمبر 3700

Hadith No 3700
Book Name Sahih Bukhari
Book Writer Imam Bukhari
Writer Death 256 ھ
Chapter Name The Virtues And Merits Of The Companions Of The Prophet.
Roman Name Nabi SAW Ke Ashaab Ki Fazeelat
Arabic Name فضائل الصحابة
Urdu Name نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت

Urdu Translation

´ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ` میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زخمی ہونے سے چند دن پہلے مدینہ میں دیکھا کہ وہ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہما کے ساتھ کھڑے تھے اور ان سے یہ فرما رہے تھے کہ (عراق کی اراضی کے لیے، جس کا انتظام خلافت کی جانب سے ان کے سپرد کیا گیا تھا) تم لوگوں نے کیا کیا ہے؟ کیا تم لوگوں کو یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تم نے زمین کا اتنا محصول لگا دیا ہے جس کی گنجائش نہ ہو۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان پر خراج کا اتنا ہی بار ڈالا ہے جسے ادا کرنے کی زمین میں طاقت ہے، اس میں کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دیکھو پھر سمجھ لو کہ تم نے ایسی جمع تو نہیں لگائی ہے جو زمین کی طاقت سے باہر ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ ان دونوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونے پائے گا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا تو میں عراق کی بیوہ عورتوں کے لیے اتنا کر دوں گا کہ پھر میرے بعد کسی کی محتاج نہیں رہیں گی۔ راوی عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ ابھی اس گفتگو پر چوتھا دن ہی آیا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ زخمی کر دیئے گئے۔ عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ جس صبح کو آپ زخمی کئے گئے، میں (فجر کی نماز کے انتظار میں) صف کے اندر کھڑا تھا اور میرے اور ان کے درمیان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا اور کوئی نہیں تھا عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب صف سے گزرتے تو فرماتے جاتے کہ صفیں سیدھی کر لو اور جب دیکھتے کہ صفوں میں کوئی خلل نہیں رہ گیا ہے تب آگے (مصلی پر) بڑھتے اور تکبیر کہتے۔ آپ (فجر کی نماز کی) پہلی رکعت میں عموماً سورۃ یوسف یا سورۃ النحل یا اتنی ہی طویل کوئی سورت پڑھتے یہاں تک کہ لوگ جمع ہو جاتے۔ اس دن ابھی آپ نے تکبیر ہی کہی تھی کہ میں نے سنا، آپ فرما رہے ہیں کہ مجھے قتل کر دیا یا کتے نے کاٹ لیا۔ ابولولو نے آپ کو زخمی کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ بدبخت اپنا دو دھاری خنجر لیے دوڑنے لگا اور دائیں اور بائیں جدھر بھی پھرتا تو لوگوں کو زخمی کرتا جاتا۔ اس طرح اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کر دیا جن میں سات حضرات نے شہادت پائی۔ مسلمانوں میں سے ایک صاحب (حطان نامی) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے اس پر اپنی چادر ڈال دی۔ اس بدبخت کو جب یقین ہو گیا کہ اب پکڑ لیا جائے گا تو اس نے خود اپنا بھی گلا کاٹ لیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں آگے بڑھا دیا (عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ) جو لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب تھے انہوں نے بھی وہ صورت حال دیکھی جو میں دیکھ رہا تھا لیکن جو لوگ مسجد کے کنارے پر تھے (پیچھے کی صفوں میں) تو انہیں کچھ معلوم نہیں ہو سکا، البتہ چونکہ عمر رضی اللہ عنہ کی قرآت (نماز میں) انہوں نے نہیں سنی تو سبحان اللہ! سبحان اللہ! کہتے رہے۔ آخر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بہت ہلکی نماز پڑھائی۔ پھر جب لوگ نماز سے پلٹے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن عباس! دیکھو مجھے کس نے زخمی کیا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تھوڑی دیر گھوم پھر کر دیکھا اور آ کر فرمایا کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ کے غلام (ابولولو) نے آپ کو زخمی کیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا، وہی جو کاریگر ہے؟ جواب دیا کہ جی ہاں، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ اسے برباد کرے میں نے تو اسے اچھی بات کہی تھی (جس کا اس نے یہ بدلا دیا) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں مقدر کی جو اسلام کا مدعی ہو۔ تم اور تمہارے والد (عباس رضی اللہ عنہ) اس کے بہت ہی خواہشمند تھے کہ عجمی غلام مدینہ میں زیادہ سے زیادہ لائے جائیں۔ یوں بھی ان کے پاس غلام بہت تھے، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا، اگر آپ فرمائیں تو ہم بھی کر گزریں۔ مقصد یہ تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم (مدینہ میں مقیم عجمی غلاموں کو) قتل کر ڈالیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ انتہائی غلط فکر ہے، خصوصاً جب کہ تمہاری زبان میں وہ گفتگو کرتے ہیں، تمہارے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں اور تمہاری طرح حج کرتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر اٹھا کر لایا گیا اور ہم آپ کے ساتھ ساتھ آئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لوگوں پر کبھی اس سے پہلے اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں تھی، بعض تو یہ کہتے تھے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ (اچھے ہو جائیں گے) اور بعض کہتے تھے کہ آپ کی زندگی خطرہ میں ہے۔ اس کے بعد کھجور کا پانی لایا گیا۔ اسے آپ نے پیا تو وہ آپ کے پیٹ سے باہر نکل آیا۔ پھر دودھ لایا گیا اسے بھی جوں ہی آپ نے پیا زخم کے راستے وہ بھی باہر نکل آیا۔ اب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ آپ کی شہادت یقینی ہے۔ پھر ہم اندر آ گئے اور لوگ آپ کی تعریف بیان کرنے لگے، اتنے میں ایک نوجوان اندر آیا اور کہنے لگایا امیرالمؤمنین! آپ کو خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی۔ ابتداء میں اسلام لانے کا شرف حاصل کیا جو آپ کو معلوم ہے۔ پھر آپ خلیفہ بنائے گئے اور آپ نے پورے انصاف سے حکومت کی، پھر شہادت پائی، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس پر بھی خوش تھا کہ ان باتوں کی وجہ سے برابر پر میرا معاملہ ختم ہو جاتا، نہ ثواب ہوتا اور نہ عذاب۔ جب وہ نوجوان جانے لگا تو اس کا تہبند (ازار) لٹک رہا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پاس واپس بلا لاؤ (جب وہ آئے تو) آپ نے فرمایا: میرے بھتیجے! یہ اپنا کپڑا اوپر اٹھائے رکھو کہ اس سے تمہارا کپڑا بھی زیادہ دنوں چلے گا اور تمہارے رب سے تقویٰ کا بھی باعث ہے۔ اے عبداللہ بن عمر! دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے؟ جب لوگوں نے آپ پر قرض کا شمار کیا تو تقریباً چھیاسی (86) ہزار نکلا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ قرض آل عمر کے مال سے ادا ہو سکے تو انہی کے مال سے اس کو ادا کرنا ورنہ پھر بنی عدی بن کعب سے کہنا، اگر ان کے مال کے بعد بھی ادائیگی نہ ہو سکے تو قریش سے کہنا، ان کے سوا کسی سے امداد نہ طلب کرنا اور میری طرف سے اس قرض کو ادا کر دینا۔ اچھا اب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ عمر نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے۔ امیرالمؤمنین (میرے نام کے ساتھ) نہ کہنا، کیونکہ اب میں مسلمانوں کا امیر نہیں رہا ہوں، تو ان سے عرض کرنا کہ عمر بن خطاب نے آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر) سلام کیا اور اجازت لے کر اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ آپ بیٹھی رو رہی ہیں۔ پھر کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اس جگہ کو اپنے لیے منتخب کر رکھا تھا لیکن آج میں انہیں اپنے پر ترجیح دوں گی، پھر جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ آ گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اٹھاؤ۔ ایک صاحب نے سہارا دے کر آپ کو اٹھایا۔ آپ نے دریافت کیا کیا خبر لائے؟ کہا کہ جو آپ کی تمنا تھی اے امیرالمؤمنین! عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا الحمدللہ۔ اس سے اہم چیز اب میرے لیے کوئی نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن جب میری وفات ہو چکے اور مجھے اٹھا کر (دفن کے لیے) لے چلو تو پھر میرا سلام ان سے کہنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر وہ میرے لیے اجازت دے دیں تب تو وہاں دفن کرنا اور اگر اجازت نہ دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا۔ اس کے بعد ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا آئیں۔ ان کے ساتھ کچھ دوسری خواتین بھی تھیں، جب ہم نے انہیں دیکھا تو ہم اٹھ گئے۔ آپ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب آئیں اور وہاں تھوڑی دیر تک آنسو بہاتی رہیں۔ پھر جب مردوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو وہ مکان کے اندرونی حصہ میں چلی گئیں اور ہم نے ان کے رونے کی آواز سنی پھر لوگوں نے عرض کیا امیرالمؤمنین! خلافت کے لیے کوئی وصیت کر دیجئیے، فرمایا کہ خلافت کا میں ان حضرات سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک جن سے راضی اور خوش تھے پھر آپ نے علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف کا نام لیا اور یہ بھی فرمایا کہ عبداللہ بن عمر کو بھی صرف مشورہ کی حد تک شریک رکھنا لیکن خلافت سے انہیں کوئی سروکار نہیں رہے گا۔ جیسے آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی تسکین کے لیے یہ فرمایا ہو۔ پھر اگر خلافت سعد کو مل جائے تو وہ اس کے اہل ہیں اور اگر وہ نہ ہو سکیں تو جو شخص بھی خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ خلافت میں ان کا تعاون حاصل کرتا رہے۔ کیونکہ میں نے ان کو (کوفہ کی گورنری سے) نااہلی یا کسی خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا ہے اور عمر نے فرمایا: میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کے احترام کو ملحوظ رکھے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے ساتھ بہتر معاملہ کرے جو دارالہجرت اور دارالایمان (مدینہ منورہ) میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے سے) مقیم ہیں۔ (خلیفہ کو چاہیے) کہ وہ ان کے نیکوں کو نوازے اور ان کے بروں کو معاف کر دیا کرے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ شہری آبادی کے ساتھ بھی اچھا معاملہ رکھے کہ یہ لوگ اسلام کی مدد، مال جمع کرنے کا ذریعہ اور (اسلام کے) دشمنوں کے لیے ایک مصیبت ہیں اور یہ کہ ان سے وہی وصول کیا جائے جو ان کے پاس فاضل ہو اور ان کی خوشی سے لیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو بدویوں کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ اصل عرب ہیں اور اسلام کی جڑ ہیں اور یہ کہ ان سے ان کا بچا کھچا مال وصول کیا جائے اور انہیں کے محتاجوں میں تقسیم کر دیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول کے عہد کی نگہداشت کی (جو اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں سے کیا ہے) وصیت کرتا ہوں کہ ان سے کئے گئے عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کے لیے جنگ کی جائے اور ان کی حیثیت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے، جب عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو ہم وہاں سے ان کو لے کر (عائشہ رضی اللہ عنہا) کے حجرہ کی طرف آئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سلام کیا اور عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ہے۔ ام المؤمنین نے کہا انہیں یہیں دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ وہیں دفن ہوئے، پھر جب لوگ دفن سے فارغ ہو چکے تو وہ جماعت (جن کے نام عمر رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے بتائے تھے) جمع ہوئی عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: تمہیں اپنا معاملہ اپنے ہی میں سے تین آدمیوں کے سپرد کر دینا چاہیے اس پر زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنا معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد کرتا ہوں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ عبدالرحمٰن بن عوف کے سپرد کیا۔ اس کے بعد عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے (عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے) کہا کہ آپ دونوں حضرات میں سے جو بھی خلافت سے اپنی برات ظاہر کرے ہم اسی کو خلافت دیں گے اور اللہ اس کا نگراں و نگہبان ہو گا اور اسلام کے حقوق کی ذمہ داری اس پر لازم ہو گی۔ ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے خیال میں کون افضل ہے، اس پر یہ دونوں حضرات خاموش ہو گئے تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ حضرات اس انتخاب کی ذمہ داری مجھ پر ڈالتے ہیں، اللہ کی قسم کہ میں آپ حضرات میں سے اسی کو منتخب کروں گا جو سب میں افضل ہو گا۔ ان دونوں حضرات نے کہا کہ جی ہاں، پھر آپ نے ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ آپ کی قرابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور ابتداء میں اسلام لانے کا شرف بھی۔ جیسا کہ آپ کو خود ہی معلوم ہے، پس اللہ آپ کا نگران ہے کہ اگر میں آپ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ عدل و انصاف سے کام لیں گے اور اگر عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ ان کے احکام سنیں گے اور ان کی اطاعت کریں گے؟ اس کے بعد دوسرے صاحب کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی یہی کہا اور جب ان سے وعدہ لے لیا تو فرمایا: اے عثمان! اپنا ہاتھ بڑھایئے۔ چنانچہ انہوں نے ان سے بیعت کی اور علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے بیعت کی، پھر اہل مدینہ آئے اور سب نے بیعت کی۔

Hadith in Arabic

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ : رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَبْلَ أَنْ يُصَابَ بِأَيَّامٍ بِالْمَدِينَةِ وَقَفَ عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَعُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ ، قَالَ : " كَيْفَ فَعَلْتُمَا أَتَخَافَانِ أَنْ تَكُونَا قَدْ حَمَّلْتُمَا الْأَرْضَ مَا لَا تُطِيقُ ؟ ، قَالَا : حَمَّلْنَاهَا أَمْرًا هِيَ لَهُ مُطِيقَةٌ مَا فِيهَا كَبِيرُ فَضْلٍ ، قَالَ : انْظُرَا أَنْ تَكُونَا حَمَّلْتُمَا الْأَرْضَ مَا لَا تُطِيقُ ، قَالَ : قَالَا لَا ، فَقَالَ عُمَرُ : لَئِنْ سَلَّمَنِي اللَّهُ لَأَدَعَنَّ أَرَامِلَ أَهْلِ الْعِرَاقِ لَا يَحْتَجْنَ إِلَى رَجُلٍ بَعْدِي أَبَدًا ، قَالَ : فَمَا أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا رَابِعَةٌ حَتَّى أُصِيبَ ، قَالَ : إِنِّي لَقَائِمٌ مَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ غَدَاةَ أُصِيبَ وَكَانَ إِذَا مَرَّ بَيْنَ الصَّفَّيْنِ ، قَالَ : اسْتَوُوا حَتَّى إِذَا لَمْ يَرَ فِيهِنَّ خَلَلًا تَقَدَّمَ فَكَبَّرَ وَرُبَّمَا قَرَأَ سُورَةَ يُوسُفَ أَوْ النَّحْلَ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّاسُ فَمَا هُوَ إِلَّا أَنْ كَبَّرَ فَسَمِعْتُهُ ، يَقُولُ : قَتَلَنِي أَوْ أَكَلَنِي الْكَلْبُ حِينَ طَعَنَهُ فَطَارَ الْعِلْجُ بِسِكِّينٍ ذَاتِ طَرَفَيْنِ لَا يَمُرُّ عَلَى أَحَدٍ يَمِينًا وَلَا شِمَالًا إِلَّا طَعَنَهُ , حَتَّى طَعَنَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَاتَ مِنْهُمْ سَبْعَةٌ ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ طَرَحَ عَلَيْهِ بُرْنُسًا ، فَلَمَّا ظَنَّ الْعِلْجُ أَنَّهُ مَأْخُوذٌ نَحَرَ نَفْسَهُ وَتَنَاوَلَ عُمَرُ يَدَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، فَقَدَّمَهُ فَمَنْ يَلِي عُمَرَ فَقَدْ رَأَى الَّذِي أَرَى وَأَمَّا نَوَاحِي الْمَسْجِدِ فَإِنَّهُمْ لَا يَدْرُونَ غَيْرَ أَنَّهُمْ قَدْ فَقَدُوا صَوْتَ عُمَرَ ، وَهُمْ يَقُولُونَ : سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ , فَصَلَّى بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ صَلَاةً خَفِيفَةً فَلَمَّا انْصَرَفُوا ، قَالَ : يَا ابْنَ عَبَّاسٍ انْظُرْ مَنْ قَتَلَنِي فَجَالَ سَاعَةً ثُمَّ جَاءَ ، فَقَالَ : غُلَامُ الْمُغِيرَةِ ، قَالَ : الصَّنَعُ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : قَاتَلَهُ اللَّهُ لَقَدْ أَمَرْتُ بِهِ مَعْرُوفًا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَجْعَلْ مِيتَتِي بِيَدِ رَجُلٍ يَدَّعِي الْإِسْلَامَ قَدْ كُنْتَ أَنْتَ وَأَبُوكَ تُحِبَّانِ أَنْ تَكْثُرَ الْعُلُوجُ بِالْمَدِينَةِ وَكَانَ الْعَبَّاسُ أَكْثَرَهُمْ رَقِيقًا ، فَقَالَ : إِنْ شِئْتَ فَعَلْتُ أَيْ إِنْ شِئْتَ قَتَلْنَا ، قَالَ : كَذَبْتَ بَعْدَ مَا تَكَلَّمُوا بِلِسَانِكُمْ وَصَلَّوْا قِبْلَتَكُمْ وَحَجُّوا حَجَّكُمْ فَاحْتُمِلَ إِلَى بَيْتِهِ فَانْطَلَقْنَا مَعَهُ وَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ تُصِبْهُمْ مُصِيبَةٌ قَبْلَ يَوْمَئِذٍ فَقَائِلٌ ، يَقُولُ : لَا بَأْسَ وَقَائِلٌ ، يَقُولُ : أَخَافُ عَلَيْهِ فَأُتِيَ بِنَبِيذٍ فَشَرِبَهُ , فَخَرَجَ مِنْ جَوْفِهِ , ثُمَّ أُتِيَ بِلَبَنٍ فَشَرِبَهُ فَخَرَجَ مِنْ جُرْحِهِ , فَعَلِمُوا أَنَّهُ مَيِّتٌ فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَجَاءَ النَّاسُ يُثْنُونَ عَلَيْهِ وَجَاءَ رَجُلٌ شَابٌّ ، فَقَالَ : أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ لَكَ مِنْ صُحْبَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدَمٍ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ ثُمَّ وَلِيتَ فَعَدَلْتَ ثُمَّ شَهَادَةٌ ، قَالَ : وَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ كَفَافٌ لَا عَلَيَّ وَلَا لِي فَلَمَّا أَدْبَرَ إِذَا إِزَارُهُ يَمَسُّ الْأَرْضَ ، قَالَ : رُدُّوا عَلَيَّ الْغُلَامَ ، قَالَ : يَا ابْنَ أَخِي ارْفَعْ ثَوْبَكَ فَإِنَّهُ أَبْقَى لِثَوْبِكَ وَأَتْقَى لِرَبِّكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ انْظُرْ مَا عَلَيَّ مِنَ الدَّيْنِ فَحَسَبُوهُ فَوَجَدُوهُ سِتَّةً وَثَمَانِينَ أَلْفًا أَوْ نَحْوَهُ ، قَالَ : إِنْ وَفَى لَهُ مَالُ آلِ عُمَرَ فَأَدِّهِ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَإِلَّا فَسَلْ فِي بَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ , فَإِنْ لَمْ تَفِ أَمْوَالُهُمْ فَسَلْ فِي قُرَيْشٍ وَلَا تَعْدُهُمْ إِلَى غَيْرِهِمْ فَأَدِّ عَنِّي هَذَا الْمَالَ , انْطَلِقْ إِلَى عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ فَقُلْ يَقْرَأُ عَلَيْكِ عُمَرُ السَّلَامَ وَلَا تَقُلْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنِّي لَسْتُ الْيَوْمَ لِلْمُؤْمِنِينَ أَمِيرًا , وَقُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ يُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيْهِ فَسَلَّمَ وَاسْتَأْذَنَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهَا فَوَجَدَهَا قَاعِدَةً تَبْكِي ، فَقَالَ : يَقْرَأُ عَلَيْكِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ السَّلَامَ وَيَسْتَأْذِنُ أَنْ يُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيْهِ ، فَقَالَتْ : كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي وَلَأُوثِرَنَّ بِهِ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي , فَلَمَّا أَقْبَلَ قِيلَ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قَدْ جَاءَ ، قَالَ : ارْفَعُونِي فَأَسْنَدَهُ رَجُلٌ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : مَا لَدَيْكَ ، قَالَ : الَّذِي تُحِبُّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَذِنَتْ ، قَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا كَانَ مِنْ شَيْءٍ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ فَإِذَا أَنَا قَضَيْتُ فَاحْمِلُونِي ثُمَّ سَلِّمْ فَقُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَأَدْخِلُونِي وَإِنْ رَدَّتْنِي رُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ , وَجَاءَتْ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ حَفْصَةُ وَالنِّسَاءُ تَسِيرُ مَعَهَا فَلَمَّا رَأَيْنَاهَا قُمْنَا , فَوَلَجَتْ عَلَيْهِ فَبَكَتْ عِنْدَهُ سَاعَةً وَاسْتَأْذَنَ الرِّجَالُ فَوَلَجَتْ دَاخِلًا لَهُمْ فَسَمِعْنَا بُكَاءَهَا مِنَ الدَّاخِلِ ، فَقَالُوا : أَوْصِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اسْتَخْلِفْ ، قَالَ : مَا أَجِدُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ أَوِ الرَّهْطِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَسَمَّى عَلِيًّا , وَعُثْمَانَ , وَالزُّبَيْرَ , وَطَلْحَةَ , وَسَعْدًا , وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ ، وَقَالَ : يَشْهَدُكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَلَيْسَ لَهُ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ كَهَيْئَةِ التَّعْزِيَةِ لَهُ فَإِنْ أَصَابَتِ الْإِمْرَةُ سَعْدًا فَهُوَ ذَاكَ وَإِلَّا فَلْيَسْتَعِنْ بِهِ أَيُّكُمْ مَا أُمِّرَ فَإِنِّي لَمْ أَعْزِلْهُ عَنْ عَجْزٍ وَلَا خِيَانَةٍ ، وَقَالَ : " أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَيَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ , وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَأَنْ يُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ وَأُوصِيهِ بِأَهْلِ الْأَمْصَارِ خَيْرًا فَإِنَّهُمْ رِدْءُ الْإِسْلَامِ وَجُبَاةُ الْمَالِ وَغَيْظُ الْعَدُوِّ , وَأَنْ لَا يُؤْخَذَ مِنْهُمْ إِلَّا فَضْلُهُمْ عَنْ رِضَاهُمْ وَأُوصِيهِ بِالْأَعْرَابِ خَيْرًا فَإِنَّهُمْ أَصْلُ الْعَرَبِ وَمَادَّةُ الْإِسْلَامِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْ حَوَاشِي أَمْوَالِهِمْ وَتُرَدَّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ , وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَلَا يُكَلَّفُوا إِلَّا طَاقَتَهُمْ " , فَلَمَّا قُبِضَ خَرَجْنَا بِهِ فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي فَسَلَّمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَتْ : أَدْخِلُوهُ فَأُدْخِلَ فَوُضِعَ هُنَالِكَ مَعَ صَاحِبَيْهِ فَلَمَّا فُرِغَ مِنْ دَفْنِهِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ الرَّهْطُ ، فَقَالَ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ اجْعَلُوا أَمْرَكُمْ إِلَى ثَلَاثَةٍ مِنْكُمْ ، فَقَالَ : الزُّبَيْرُ قَدْ جَعَلْتُ أَمْرِي إِلَى عَلِيٍّ ، فَقَالَ : طَلْحَةُ قَدْ جَعَلْتُ أَمْرِي إِلَى عُثْمَانَ ، وَقَالَ سَعْدٌ : قَدْ جَعَلْتُ أَمْرِي إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : أَيُّكُمَا تَبَرَّأَ مِنْ هَذَا الْأَمْرِ فَنَجْعَلُهُ إِلَيْهِ وَاللَّهُ عَلَيْهِ وَالْإِسْلَامُ لَيَنْظُرَنَّ أَفْضَلَهُمْ فِي نَفْسِهِ فَأُسْكِتَ الشَّيْخَانِ ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : أَفَتَجْعَلُونَهُ إِلَيَّ وَاللَّهُ عَلَيَّ أَنْ لَا آلُ عَنْ أَفْضَلِكُمْ ، قَالَا : نَعَمْ فَأَخَذَ بِيَدِ أَحَدِهِمَا ، فَقَالَ : لَكَ قَرَابَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَدَمُ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ فَاللَّهُ عَلَيْكَ لَئِنْ أَمَّرْتُكَ لَتَعْدِلَنَّ وَلَئِنْ أَمَّرْتُ عُثْمَانَ لَتَسْمَعَنَّ وَلَتُطِيعَنَّ ثُمَّ خَلَا بِالْآخَرِ ، فَقَالَ لَهُ : مِثْلَ ذَلِكَ فَلَمَّا أَخَذَ الْمِيثَاقَ ، قَالَ : ارْفَعْ يَدَكَ يَا عُثْمَانُ فَبَايَعَهُ فَبَايَعَ لَهُ عَلِيٌّ وَوَلَجَ أَهْلُ الدَّارِ فَبَايَعُوهُ .

English Translation

Narrated `Amr bin Maimun: I saw `Umar bin Al-Khattab a few days before he was stabbed in Medina. He was standing with Hudhaifa bin Al-Yaman and `Uthman bin Hunaif to whom he said, "What have you done? Do you think that you have imposed more taxation on the land (of As-Swad i.e. 'Iraq) than it can bear?" They replied, "We have imposed on it what it can bear because of its great yield." `Umar again said, "Check whether you have imposed on the land what it can not bear." They said, "No, (we haven't)." `Umar added, "If Allah should keep me alive I will let the widows of Iraq need no men to support them after me." But only four days had elapsed when he was stabbed (to death ). The day he was stabbed, I was standing and there was nobody between me and him (i.e. `Umar) except `Abdullah bin `Abbas. Whenever `Umar passed between the two rows, he would say, "Stand in straight lines." When he saw no defect (in the rows), he would go forward and start the prayer with Takbir. He would recite Surat Yusuf or An-Nahl or the like in the first rak`a so that the people may have the time to Join the prayer. As soon as he said Takbir, I heard him saying, "The dog has killed or eaten me," at the time he (i.e. the murderer) stabbed him. A non-Arab infidel proceeded on carrying a double-edged knife and stabbing all the persons he passed by on the right and left (till) he stabbed thirteen persons out of whom seven died. When one of the Muslims saw that, he threw a cloak on him. Realizing that he had been captured, the non-Arab infidel killed himself, `Umar held the hand of `Abdur-Rahman bin `Auf and let him lead the prayer. Those who were standing by the side of `Umar saw what I saw, but the people who were in the other parts of the Mosque did not see anything, but they lost the voice of `Umar and they were saying, "Subhan Allah! Subhan Allah! (i.e. Glorified be Allah)." `Abdur-Rahman bin `Auf led the people a short prayer. When they finished the prayer, `Umar said, "O Ibn `Abbas! Find out who attacked me." Ibn `Abbas kept on looking here and there for a short time and came to say. "The slave of Al Mughira." On that `Umar said, "The craftsman?" Ibn `Abbas said, "Yes." `Umar said, "May Allah curse him. I did not treat him unjustly. All the Praises are for Allah Who has not caused me to die at the hand of a man who claims himself to be a Muslim. No doubt, you and your father (Abbas) used to love to have more non-Arab infidels in Medina." Al-Abbas had the greatest number of slaves. Ibn `Abbas said to `Umar. "If you wish, we will do." He meant, "If you wish we will kill them." `Umar said, "You are mistaken (for you can't kill them) after they have spoken your language, prayed towards your Qibla, and performed Hajj like yours." Then `Umar was carried to his house, and we went along with him, and the people were as if they had never suffered a calamity before. Some said, "Do not worry (he will be Alright soon)." Some said, "We are afraid (that he will die)." Then an infusion of dates was brought to him and he drank it but it came out (of the wound) of his belly. Then milk was brought to him and he drank it, and it also came out of his belly. The people realized that he would die. We went to him, and the people came, praising him. A young man came saying, "O chief of the believers! Receive the glad tidings from Allah to you due to your company with Allah's Apostle and your superiority in Islam which you know. Then you became the ruler (i.e. Caliph) and you ruled with justice and finally you have been martyred." `Umar said, "I wish that all these privileges will counterbalance (my shortcomings) so that I will neither lose nor gain anything." When the young man turned back to leave, his clothes seemed to be touching the ground. `Umar said, "Call the young man back to me." (When he came back) `Umar said, "O son of my brother! Lift your clothes, for this will keep your clothes clean and save you from the Punishment of your Lord." `Umar further said, "O `Abdullah bin `Umar! See how much I am in debt to others." When the debt was checked, it amounted to approximately eighty-six thousand. `Umar said, "If the property of `Umar's family covers the debt, then pay the debt thereof; otherwise request it from Bani `Adi bin Ka`b, and if that too is not sufficient, ask for it from Quraish tribe, and do not ask for it from any one else, and pay this debt on my behalf." `Umar then said (to `Abdullah), "Go to `Aisha (the mother of the believers) and say: "`Umar is paying his salutation to you. But don't say: 'The chief of the believers,' because today I am not the chief of the believers. And say: "`Umar bin Al-Khattab asks the permission to be buried with his two companions (i.e. the Prophet, and Abu Bakr)." `Abdullah greeted `Aisha and asked for the permission for entering, and then entered to her and found her sitting and weeping. He said to her, "`Umar bin Al-Khattab is paying his salutations to you, and asks the permission to be buried with his two companions." She said, "I had the idea of having this place for myself, but today I prefer `Umar to myself." When he returned it was said (to `Umar), "`Abdullah bin `Umar has come." `Umar said, "Make me sit up." Somebody supported him against his body and `Umar asked (`Abdullah), "What news do you have?" He said, "O chief of the believers! It is as you wish. She has given the permission." `Umar said, "Praise be to Allah, there was nothing more important to me than this. So when I die, take me, and greet `Aisha and say: "`Umar bin Al-Khattab asks the permission (to be buried with the Prophet ), and if she gives the permission, bury me there, and if she refuses, then take me to the grave-yard of the Muslims." Then Hafsa (the mother of the believers) came with many other women walking with her. When we saw her, we went away. She went in (to `Umar) and wept there for sometime. When the men asked for permission to enter, she went into another place, and we heard her weeping inside. The people said (to `Umar), "O chief of the believers! Appoint a successor." `Umar said, "I do not find anyone more suitable for the job than the following persons or group whom Allah's Apostle had been pleased with before he died." Then `Umar mentioned `Ali, `Uthman, AzZubair, Talha, Sa`d and `Abdur-Rahman (bin `Auf) and said, "Abdullah bin `Umar will be a witness to you, but he will have no share in the rule. His being a witness will compensate him for not sharing the right of ruling. If Sa`d becomes the ruler, it will be alright: otherwise, whoever becomes the ruler should seek his help, as I have not dismissed him because of disability or dishonesty." `Umar added, "I recommend that my successor takes care of the early emigrants; to know their rights and protect their honor and sacred things. I also recommend that he be kind to the Ansar who had lived in Medina before the emigrants and Belief had entered their hearts before them. I recommend that the (ruler) should accept the good of the righteous among them and excuse their wrong-doers, and I recommend that he should do good to all the people of the towns (Al-Ansar), as they are the protectors of Islam and the source of wealth and the source of annoyance to the enemy. I also recommend that nothing be taken from them except from their surplus with their consent. I also recommend that he do good to the 'Arab bedouin, as they are the origin of the 'Arabs and the material of Islam. He should take from what is inferior, amongst their properties and distribute that to the poor amongst them. I also recommend him concerning Allah's and His Apostle's protectees (i.e. Dhimmis) to fulfill their contracts and to fight for them and not to overburden them with what is beyond their ability." So when `Umar expired, we carried him out and set out walking. `Abdullah bin `Umar greeted (`Aisha) and said, "`Umar bin Al-Khattab asks for the permission." `Aisha said, "Bring him in." He was brought in and buried beside his two companions. When he was buried, the group (recommended by `Umar) held a meeting. Then `Abdur-Rahman said, " Reduce the candidates for rulership to three of you." Az-Zubair said, "I give up my right to `Ali." Talha said, "I give up my right to `Uthman," Sa`d, 'I give up my right to `Abdur-Rahman bin `Auf." `Abdur-Rahman then said (to `Uthman and `Ali), "Now which of you is willing to give up his right of candidacy to that he may choose the better of the (remaining) two, bearing in mind that Allah and Islam will be his witnesses." So both the sheiks (i.e. `Uthman and `Ali) kept silent. `Abdur-Rahman said, "Will you both leave this matter to me, and I take Allah as my Witness that I will not choose but the better of you?" They said, "Yes." So `Abdur-Rahman took the hand of one of them (i.e. `Ali) and said, "You are related to Allah's Apostle and one of the earliest Muslims as you know well. So I ask you by Allah to promise that if I select you as a ruler you will do justice, and if I select `Uthman as a ruler you will listen to him and obey him." Then he took the other (i.e. `Uthman) aside and said the same to him. When `Abdur-Rahman secured (their agreement to) this covenant, he said, "O `Uthman! Raise your hand." So he (i.e. `Abdur-Rahman) gave him (i.e. `Uthman) the solemn pledge, and then `Ali gave him the pledge of allegiance and then all the (Medina) people gave him the pledge of allegiance.

Your Comments/Thoughts ?

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت سے مزید احادیث

حدیث نمبر 3754

´ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے کہا ہم کو جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ` ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار کو انہوں نے آزاد کیا ہے، ان کی مراد بلال حبشی رضی اللہ عنہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3756

´ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے کہ` ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے سے لگایا اور فرمایا اے اللہ! اسے حکمت کا علم عطا فرما۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3666

´ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3743

´ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے بیان کیا کہ` علقمہ رضی اللہ عنہ شام میں تشریف لے گئے اور مسجد میں جا کر یہ دعا کی۔ اے اللہ! مجھے ایک نیک ساتھی عطا فرما، چنانچہ آپ کو ابودرداء رضی اللہ عنہ کی صحبت نصیب ہوئی۔ ابودرداء ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3720

´ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` جنگ احزاب کے موقع پر مجھے اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کو عورتوں میں چھوڑ دیا گیا تھا (کیونکہ یہ دونوں حضرات بچے تھے) میں نے اچانک ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3710

´ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، ان سے ابوعبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ` عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اور کہتے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3775

´ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے کہا، ہم سے ہشام نے، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے کہا کہ` لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے بھیجنے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3717

´ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ مجھے مروان بن حکم نے خبر دی کہ` جس سال نکسیر پھوٹنے کی بیماری پھوٹ پڑی تھی اس سال عثمان رضی اللہ عنہ کو اتنی سخت نکسیر پھوٹی کہ آپ حج کے لیے بھی نہ جا سکے، اور (زندگی سے مایوس ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3764

´کہا ہم سے حسن بن بشیر نے بیان کیا، ان سے عثمان بن اسود نے اور ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ` معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی وہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مولیٰ (کریب) بھی موجود تھے، جب وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3695

´ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ (بئراریس) کے اندر تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں دروازہ پر پہرہ دیتا رہوں۔ پھر ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3654

´مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سالم ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے بسر بن سعید نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3692

´ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے مسور بن مخرمہ نے بیان کیا کہ` جب عمر رضی اللہ عنہ زخمی کر دیئے گئے تو آپ نے بڑی بے چینی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ سے تسلی کے طور پر کہا ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3668

‏‏‏‏ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پوجتا تھا (یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد صلی ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3739

‏‏‏‏ حفصہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا خواب بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ کاش! رات میں وہ تہجد کی نماز پڑھا کرتا۔ سالم نے بیان کیا کہ عبداللہ اس کے بعد رات میں بہت کم سویا کرتے تھے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3715

´ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اس مرض کے موقع پر بلایا جس میں آپ کی وفات ہوئی، پھر ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3772

´ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے اور انہوں نے ابووائل سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ` جب علی رضی اللہ عنہ نے عمار اور حسن رضی اللہ عنہما کو کوفہ بھیجا تھا تاکہ لوگوں کو اپنی مدد کے لیے تیار کریں تو عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے خطاب کرتے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3742

´ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ` میں جب شام آیا تو میں نے دو رکعت نماز پڑھ کر یہ دعا کی کہ اے اللہ! مجھے کوئی نیک ساتھی عطا فرما۔ پھر میں ایک قوم کے پاس آیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ گیا، تھوڑی ہی دیر بعد ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3768

´ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا اے عائش یہ جبرائیل علیہ السلام تشریف فرما ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3649

´ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ` ہم سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3758

´ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ابراہیم نے اور ان سے مسروق نے کہ` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے یہاں عبداللہ بن مسعود کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا میں ان سے ہمیشہ محبت رکھوں گا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ..مکمل حدیث پڑھیئے