Hadith no 4141 Of Sahih Bukhari Chapter Ghazwat Ke Bayan May (Al- Maghazi.)

Read Sahih Bukhari Hadith No 4141 - Hadith No 4141 is from Al- Maghazi , Ghazwat Ke Bayan May Chapter in the Sahih Bukhari Hadees Book, which is written by Imam Bukhari. Hadith # 4141 of Imam Bukhari covers the topic of Al- Maghazi briefly in Sahih Bukhari. You can read Hadith No 4141 from Al- Maghazi in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.

صحیح بخاری - حدیث نمبر 4141

Hadith No 4141
Book Name Sahih Bukhari
Book Writer Imam Bukhari
Writer Death 256 ھ
Chapter Name Al- Maghazi.
Roman Name Ghazwat Ke Bayan May
Arabic Name المغازي
Urdu Name غزوات کے بیان میں

Urdu Translation

´ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر ‘ سعید بن مسیب ‘ علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ` جب اہل افک (یعنی تہمت لگانے والوں) نے ان کے متعلق وہ سب کچھ کہا جو انہیں کہنا تھا (ابن شہاب نے بیان کیا کہ) تمام حضرات نے (جن چار حضرات کے نام انہوں نے روایت کے سلسلے میں لیے ہیں) مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا۔ یہ بھی تھا کہ ان میں سے بعض کو یہ قصہ زیادہ بہتر طریقہ پر یاد تھا اور عمدگی سے یہ قصہ بیان کرتا تھا اور میں نے ان میں سے ہر ایک کی روایت یاد رکھی جو اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے یاد رکھی تھی۔ اگرچہ بعض لوگوں کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں روایت زیادہ بہتر طریقہ پر یاد تھی۔ پھر بھی ان میں باہم ایک کی روایت دوسرے کی روایت کی تصدیق کرتی ہے۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے درمیان قرعہ ڈالا کرتے تھے اور جس کا نام آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر جب آپ نے قرعہ ڈالا تو میرا نام نکلا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم کے نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ چنانچہ مجھے ہودج سمیت اٹھا کر سوار کر دیا جاتا اور اسی کے ساتھ اتارا جاتا۔ اس طرح ہم روانہ ہوئے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس غزوہ سے فارغ ہو گئے تو واپس ہوئے۔ واپسی میں اب ہم مدینہ کے قریب تھے (اور ایک مقام پر پڑاؤ تھا) جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا رات کے وقت اعلان کیا۔ کوچ کا اعلان ہو چکا تھا تو میں کھڑی ہوئی اور تھوڑی دور چل کر لشکر کے حدود سے آگے نکل گئی۔ پھر قضائے حاجت سے فارغ ہو کر میں اپنی سواری کے پاس پہنچی۔ وہاں پہنچ کر جو میں نے اپنا سینہ ٹٹولا تو ظفار (یمن کا ایک شہر) کے مہرہ کا بنا ہوا میرا ہار غائب تھا۔ اب میں پھر واپس ہوئی اور اپنا ہار تلاش کرنے لگی۔ اس تلاش میں دیر ہو گئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ جو لوگ مجھے سوار کیا کرتے تھے وہ آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر انہوں نے میرے اونٹ پر رکھ دیا۔ جس پر میں سوار ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے سمجھا کہ میں ہودج کے اندر ہی موجود ہوں۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ ان کے جسم میں زیادہ گوشت نہیں ہوتا تھا کیونکہ بہت معمولی خوراک انہیں ملتی تھی۔ اس لیے اٹھانے والوں نے جب اٹھایا تو ہودج کے ہلکے پن میں انہیں کوئی فرق معلوم نہیں ہوا۔ یوں بھی اس وقت میں ایک کم عمر لڑکی تھی۔ غرض اونٹ کو اٹھا کر وہ بھی روانہ ہو گئے۔ جب لشکر گزر گیا تو مجھے بھی اپنا ہار مل گیا۔ میں ڈیرے پر آئی تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ نہ پکارنے والا نہ جواب دینے والا۔ اس لیے میں وہاں آئی جہاں میرا اصل ڈیرہ تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی میرے نہ ہونے کا انہیں علم ہو جائے گا اور مجھے لینے کے لیے وہ واپس لوٹ آئیں گے۔ اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی الذکوانی رضی اللہ عنہ لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ (تاکہ لشکر کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو تو وہ اٹھا لیں) انہوں نے ایک سوئے انسان کا سایہ دیکھا اور جب (قریب آ کر) مجھے دیکھا تو پہچان گئے پردہ سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ مجھے جب وہ پہچان گئے تو اناللہ پڑھنا شروع کیا اور ان کی آواز سے میں جاگ اٹھی اور فوراً اپنی چادر سے میں نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اللہ کی قسم! میں نے ان سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ سوا اناللہ کے میں نے ان کی زبان سے کوئی لفظ سنا۔ وہ سواری سے اتر گئے اور اسے انہوں نے بٹھا کر اس کی اگلی ٹانگ کو موڑ دیا (تاکہ بغیر کسی مدد کے ام المؤمنین اس پر سوار ہو سکیں) میں اٹھی اور اس پر سوار ہو گئی۔ اب وہ سواری کو آگے سے پکڑے ہوئے لے کر چلے۔ جب ہم لشکر کے قریب پہنچے تو ٹھیک دوپہر کا وقت تھا۔ لشکر پڑاؤ کئے ہوئے تھا۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا۔ اصل میں تہمت کا بیڑا عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) نے اٹھا رکھا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس تہمت کا چرچا کرتا اور اس کی مجلسوں میں اس کا تذکرہ ہوا کرتا۔ وہ اس کی تصدیق کرتا ‘ خوب غور اور توجہ سے سنتا اور پھیلانے کے لیے خوب کھود کرید کرتا۔ عروہ نے پہلی سند کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ حسان بن ثابت ‘ مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش کے سوا تہمت لگانے میں شریک کسی کا بھی نام نہیں لیا کہ مجھے ان کا علم ہوتا۔ اگرچہ اس میں شریک ہونے والے بہت سے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (کہ جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ بہت سے ہیں) لیکن اس معاملہ میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ اس پر بڑی خفگی کا اظہار کرتی تھیں۔ اگر ان کے سامنے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جاتا ‘ آپ فرماتیں کہ یہ شعر حسان ہی نے کہا ہے کہ میرے والد اور میرے والد کے والد اور میری عزت ‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لیے تمہارے سامنے ڈھال بنی رہیں گی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم مدینہ پہنچ گئے اور وہاں پہنچتے ہی میں بیمار ہو گئی تو ایک مہینے تک بیمار ہی رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی افواہوں کا بڑا چرچا رہا لیکن میں ایک بات بھی نہیں سمجھ رہی تھی البتہ اپنے مرض کے دوران ایک چیز سے مجھے بڑا شبہ ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت و عنایت میں نہیں محسوس کرتی تھی جس کو پہلے جب بھی بیمار ہوتی میں دیکھ چکی تھی۔ آپ میرے پاس تشریف لاتے ‘ سلام کرتے اور دریافت فرماتے کیسی طبیعت ہے؟ صرف اتنا پوچھ کر واپس تشریف لے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے مجھے شبہ ہوتا تھا۔ لیکن شر (جو پھیل چکا تھا) اس کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔ مرض سے جب افاقہ ہوا تو میں ام مسطح کے ساتھ مناصع کی طرف گئی۔ مناصع (مدینہ کی آبادی سے باہر) ہمارے رفع حاجت کی جگہ تھی۔ ہم یہاں صرف رات کے وقت جاتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے۔ جب بیت الخلاء ہمارے گھروں کے قریب بن گئے تھے۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ ابھی ہم عرب قدیم کے طریقے پر عمل کرتے اور میدان میں رفع حاجت کے لیے جایا کرتے تھے اور ہمیں اس سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاء ہمارے گھروں کے قریب بنائے جائیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ الغرض میں اور ام مسطح (رفع حاجت کے لیے) گئے۔ ام مسطح ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبد مناف کی بیٹی ہیں۔ ان کی والدہ صخر بن عامر کی بیٹی ہیں اور وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں۔ انہی کے بیٹے مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھر میں اور ام مسطح حاجت سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف واپس آ رہے تھے کہ ام مسطح اپنی چادر میں الجھ گئیں اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسطح ذلیل ہو۔ میں نے کہا ‘ آپ نے بری بات زبان سے نکالی ‘ ایک ایسے شخص کو آپ برا کہہ رہی ہیں جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو چکا ہے۔ انہوں نے اس پر کہا کیوں مسطح کی باتیں تم نے نہیں سنیں؟ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے؟ بیان کیا ‘ پھر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں سنائیں۔ بیان کیا کہ ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا۔ جب میں اپنے گھر واپس آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور سلام کے بعد دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے؟ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میرا ارادہ یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تصدیق کروں گی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے اپنی والدہ سے (گھر جا کر) پوچھا کہ آخر لوگوں میں کس طرح کی افواہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ بیٹی! فکر نہ کر ‘ اللہ کی قسم! ایسا شاید ہی کہیں ہوا ہو کہ ایک خوبصورت عورت کسی ایسے شوہر کے ساتھ ہو جو اس سے محبت بھی رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر اس پر تہمتیں نہ لگائی گئی ہوں۔ اس کی عیب جوئی نہ کی گئی ہو۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے اس پر کہا کہ سبحان اللہ (میری سوکنوں سے اس کا کیا تعلق) اس کا تو عام لوگوں میں چرچا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ادھر پھر جو میں نے رونا شروع کیا تو رات بھر روتی رہی اسی طرح صبح ہو گئی اور میرے آنسو کسی طرح نہ تھمتے تھے اور نہ نیند ہی آتی تھی۔ بیان کیا کہ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنی بیوی کو علیحدہ کرنے کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بلایا کیونکہ اس سلسلے میں اب تک آپ پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ بیان کیا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی کے مطابق مشورہ دیا جو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی (مراد خود اپنی ذات سے ہے) کی پاکیزگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے محبت کے متعلق جانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ آپ کی بیوی میں مجھے خیر و بھلائی کے سوا اور کچھ معلوم نہیں ہے لیکن علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے اور عورتیں بھی ان کے علاوہ بہت ہیں۔ آپ ان کی باندی (بریرہ رضی اللہ عنہا) سے بھی دریافت فرما لیں وہ حقیقت حال بیان کر دے گی۔ بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے تمہیں (عائشہ پر) شبہ ہوا ہو۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا۔ میں نے ان کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جو بری ہو۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ ایک نوعمر لڑکی ہیں ‘ آٹا گوندھ کر سو جاتی ہیں اور بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا اور منبر پر کھڑے ہو کر عبداللہ بن ابی (منافق) کا معاملہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے گروہ مسلمین! اس شخص کے بارے میں میری کون مدد کرے گا جس کی اذیتیں اب میری بیوی کے معاملے تک پہنچ گئی ہیں۔ اللہ کی قسم کہ میں نے اپنی بیوی میں خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی اور نام بھی ان لوگوں نے ایک ایسے شخص (صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جو ام المؤمنین کو اپنے اونٹ پر لائے تھے) کا لیا ہے جس کے بارے میں بھی میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر آئے تو میرے ساتھ ہی آئے۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو اسہل کے ہم رشتہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا میں، یا رسول اللہ! آپ کی مدد کروں گا۔ اگر وہ شخص قبیلہ اوس کا ہوا تو میں اس کی گردن مار دوں گا اور اگر وہ ہمارے قبیلہ کا ہوا آپ کا اس کے متعلق بھی جو حکم ہو گا ہم بجا لائیں گے۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ اس پر قبیلہ خزرج کے ایک صحابی کھڑے ہوئے۔ حسان کی والدہ ان کی چچا زاد بہن تھیں یعنی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور اس سے پہلے بڑے صالح اور مخلصین میں تھے لیکن آج قبیلہ کی حمیت ان پر غالب آ گئی۔ انہوں نے سعد رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہا: اللہ کی قسم! تم جھوٹے ہو ‘ تم اسے قتل نہیں کر سکتے، اور نہ تمہارے اندر اتنی طاقت ہے۔ اگر وہ تمہارے قبیلہ کا ہوتا تو تم اس کے قتل کا نام نہ لیتے۔ اس کے بعد اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ جو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے چچیرے بھائی تھے کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہا: اللہ کی قسم! تم جھوٹے ہو ‘ ہم اسے ضرور قتل کریں گے۔ اب اس میں شبہ نہیں رہا کہ تم بھی منافق ہو ‘ تم منافقوں کی طرف سے مدافعت کرتے ہو۔ اتنے میں اوس و خزرج کے دونوں قبیلے بھڑک اٹھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپس ہی میں لڑ پڑیں گے۔ اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر ہی تشریف فرما تھے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو خاموش کرانے لگے۔ سب حضرات چپ ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو گئے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اس روز پورا دن روتی رہی۔ نہ میرا آنسو تھمتا تھا اور نہ آنکھ لگتی تھی۔ بیان کیا کہ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آئے۔ دو راتیں اور ایک دن میرا روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس پورے عرصہ میں نہ میرا آنسو رکا اور نہ نیند آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ابھی میرے والدین میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے انہیں اجازت دے دی اور وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ بیان کیا کہ ہم ابھی اسی حالت میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ بیان کیا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ گزر گیا تھا اور میرے بارے میں آپ کو وحی کے ذریعہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا امابعد اے عائشہ! مجھے تمہارے بارے میں اس اس طرح کی خبریں ملی ہیں ‘ اگر تم واقعی اس معاملہ میں پاک و صاف ہو تو اللہ تمہاری پاکی خود بیان کر دے گا لیکن اگر تم نے کسی گناہ کا قصد کیا تھا تو اللہ کی مغفرت چاہو اور اس کے حضور میں توبہ کرو کیونکہ بندہ جب (اپنے گناہوں کا) اعتراف کر لیتا ہے اور پھر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کلام پورا کر چکے تو میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے کہ ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میں نے پہلے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کلام کا جواب دیں۔ والد نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں کچھ نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ اس کا جواب دیں۔ والدہ نے بھی یہی کہا۔ اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ اس لیے میں نے خود ہی عرض کیا۔ حالانکہ میں بہت کم عمر لڑکی تھی اور قرآن مجید بھی میں نے زیادہ نہیں پڑھا تھا کہ اللہ کی قسم! مجھے بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگوں نے اس طرح کی افوہوں پر کان دھرا اور بات آپ لوگوں کے دلوں میں اتر گئی اور آپ لوگوں نے اس کی تصدیق کی۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں اس تہمت سے بری ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اگر اور اس گناہ کا اقرار کر لوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں تو آپ لوگ اس کی تصدیق کرنے لگ جائیں گے۔ پس اللہ کی قسم! میری اور لوگوں کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد جیسی ہے۔ جب انہوں نے کہا تھا «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون‏» (یوسف: 18) پس صبر جمیل بہتر ہے اور اللہ ہی کی مدد درکار ہے اس بارے میں جو کچھ تم کہہ رہے ہو پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ اللہ خوب جانتا تھا کہ میں اس معاملہ میں قطعاً بری تھی اور وہ خود میری برات ظاہر کرے گا۔ کیونکہ میں واقعی بری تھی لیکن اللہ کی قسم! مجھے اس کا کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ قرآن مجید میں میرے معاملے کی صفائی اتارے گا کیونکہ میں اپنے کو اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملہ میں خود کوئی کلام فرمائے ‘ مجھے تو صرف اتنی امید تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ میری برات کر دے گا لیکن اللہ کی قسم! ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے اٹھے بھی نہیں تھے اور نہ اور کوئی گھر کا آدمی وہاں سے اٹھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونی شروع ہوئی اور آپ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی کی شدت میں طاری ہوتی تھی۔ موتیوں کی طرح پسینے کے قطرے آپ کے چہرے سے گرنے لگے۔ حالانکہ سردی کا موسم تھا۔ یہ اس وحی کی وجہ سے تھا جو آپ پر نازل ہو رہی تھی۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر آپ کی وہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ تبسم فرما رہے تھے۔ سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ نے تمہاری برات نازل کر دی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میری والدہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ۔ میں نے کہا ‘ نہیں اللہ کی قسم! میں آپ کے سامنے نہیں کھڑی ہوں گی۔ میں اللہ عزوجل کے سوا اور کسی کی حمد و ثنا نہیں کروں گی (کہ اسی نے میری برات نازل کی ہے) بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا «إن الذين جاءوا بالإفك‏» جو لوگ تہمت تراشی میں شریک ہوئے ہیں دس آیتیں اس سلسلہ میں نازل فرمائیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النور میں) یہ آیتیں میری برات کے لیے نازل فرمائیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (جو مسطح بن اثاثہ کے اخراجات ‘ ان سے قرابت اور ان کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھاتے تھے) نے کہا: اللہ کی قسم! مسطح نے جب عائشہ کے متعلق اس طرح کی تہمت تراشی میں حصہ لیا تو میں اس پر اب کبھی کچھ خرچ نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ولا يأتل أولو الفضل منكم‏» یعنی اہل فضل اور اہل ہمت قسم نہ کھائیں سے «غفور رحيم‏» تک (کیونکہ مسطح رضی اللہ عنہ یا دوسرے مومنین کی اس میں شرکت محض غلط فہمی کی بنا پر تھی)۔ چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کہنے پر معاف کر دے اور مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے ‘ اسے پھر دینے لگے اور کہا کہ اللہ کی قسم! اب اس وظیفہ کو میں کبھی بند نہیں کروں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے بھی مشورہ کیا تھا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق کیا معلومات ہیں تمہیں یا ان میں تم نے کیا چیز دیکھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی آنکھوں اور کانوں کو محفوظ رکھتی ہوں (کہ ان کی طرف خلاف واقعہ نسبت کروں) اللہ کی قسم! میں ان کے بارے میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ زینب ہی تمام ازواج مطہرات میں میرے مقابل کی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے تقویٰ اور پاکبازی کی وجہ سے انہیں محفوظ رکھا۔ بیان کیا کہ البتہ ان کی بہن حمنہ نے غلط راستہ اختیار کیا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئی تھیں۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ یہی تھی وہ تفصیل اس حدیث کی جو ان اکابر کی طرف سے مجھ تک پہنچی تھی۔ پھر عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! جن صحابی کے ساتھ یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ (اپنے پر اس تہمت کو سن کر) کہتے ‘ سبحان اللہ ‘ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ میں نے آج تک کسی عورت کا پردہ نہیں کھولا۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر اس واقعہ کے بعد وہ اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے تھے۔

Hadith in Arabic

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ صَالِحٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , قَالَ : حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ , وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ , وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ لَهَا : أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا وَكُلُّهُمْ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنْ حَدِيثِهَا وَبَعْضُهُمْ كَانَ أَوْعَى لِحَدِيثِهَا مِنْ بَعْضٍ , وَأَثْبَتَ لَهُ اقْتِصَاصًا وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمُ الْحَدِيثَ الَّذِي حَدَّثَنِي عَنْ عَائِشَةَ , وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا وَإِنْ كَانَ بَعْضُهُمْ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضٍ , قَالُوا : قَالَتْ عَائِشَةُ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ فَأَيُّهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ , قَالَتْ عَائِشَةُ : فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا فَخَرَجَ فِيهَا سَهْمِي , فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ فَكُنْتُ أُحْمَلُ فِي هَوْدَجِي وَأُنْزَلُ فِيهِ , فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَتِهِ تِلْكَ وَقَفَلَ دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ قَافِلِينَ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ , فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ , فَلَمَّا قَضَيْتُ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى رَحْلِي فَلَمَسْتُ صَدْرِي فَإِذَا عِقْدٌ لِي مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدِ انْقَطَعَ , فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي فَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ , قَالَتْ : وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يُرَحِّلُونِي فَاحْتَمَلُوا هَوْدَجِي فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِي الَّذِي كُنْتُ أَرْكَبُ عَلَيْهِ وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ وَكَانَ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يَهْبُلْنَ وَلَمْ يَغْشَهُنَّ اللَّحْمُ , إِنَّمَا يَأْكُلْنَ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ خِفَّةَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَفَعُوهُ وَحَمَلُوهُ , وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ , فَبَعَثُوا الْجَمَلَ فَسَارُوا وَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ وَلَيْسَ بِهَا مِنْهُمْ دَاعٍ وَلَا مُجِيبٌ , فَتَيَمَّمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ بِهِ وَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ سَيَفْقِدُونِي فَيَرْجِعُونَ إِلَيَّ , فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي فَنِمْتُ , وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي , وَكَانَ رَآنِي قَبْلَ الْحِجَابِ فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي وَوَاللَّهِ مَا تَكَلَّمْنَا بِكَلِمَةٍ وَلَا سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ , وَهَوَى حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ فَوَطِئَ عَلَى يَدِهَا فَقُمْتُ إِلَيْهَا فَرَكِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِي الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ مُوغِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ وَهُمْ نُزُولٌ , قَالَتْ : فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَ الْإِفْكِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ , قَالَ عُرْوَةُ : أُخْبِرْتُ أَنَّهُ كَانَ يُشَاعُ وَيُتَحَدَّثُ بِهِ عِنْدَهُ فَيُقِرُّهُ وَيَسْتَمِعُهُ وَيَسْتَوْشِيهِ , وَقَالَ عُرْوَةُ أَيْضًا : لَمْ يُسَمَّ مِنْ أَهْلِ الْإِفْكِ أَيْضًا إِلَّا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ , وَمِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ , وَحَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ فِي نَاسٍ آخَرِينَ لَا عِلْمَ لِي بِهِمْ غَيْرَ أَنَّهُمْ عُصْبَةٌ كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى , وَإِنَّ كِبْرَ ذَلِكَ يُقَالُ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ , قَالَ عُرْوَةُ : كَانَتْ عَائِشَةُ تَكْرَهُ أَنْ يُسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ وَتَقُولُ : إِنَّهُ الَّذِي قَالَ : فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ قَالَتْ عَائِشَةُ : فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْتُ شَهْرًا وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِي قَوْلِ أَصْحَابِ الْإِفْكِ , لَا أَشْعُرُ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ يَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لَا أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللُّطْفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِي , إِنَّمَا يَدْخُلُ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُسَلِّمُ , ثُمَّ يَقُولُ : " كَيْفَ تِيكُمْ " , ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَذَلِكَ يَرِيبُنِي وَلَا أَشْعُرُ بِالشَّرِّ حَتَّى خَرَجْتُ حِينَ نَقَهْتُ , فَخَرَجْتُ مَعَ أُمِّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ وَكَانَ مُتَبَرَّزَنَا وَكُنَّا لَا نَخْرُجُ إِلَّا لَيْلًا إِلَى لَيْلٍ وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا , قَالَتْ : وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِي الْبَرِّيَّةِ قِبَلَ الْغَائِطِ , وَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا , قَالَتْ : فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ وَهِيَ ابْنَةُ أَبِي رُهْمِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَأُمُّهَا بِنْتُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْمُطَّلِبِ , فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ بَيْتِي حِينَ فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا , فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا , فَقَالَتْ : تَعِسَ مِسْطَحٌ , فَقُلْتُ لَهَا : بِئْسَ مَا قُلْتِ , أَتَسُبِّينَ رَجُلًا شَهِدَ بَدْرًا , فَقَالَتْ : أَيْ هَنْتَاهْ وَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ ؟ قَالَتْ : وَقُلْتُ مَا قَالَ , فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ , قَالَتْ : فَازْدَدْتُ مَرَضًا عَلَى مَرَضِي , فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ , ثُمَّ قَالَ : " كَيْفَ تِيكُمْ " , فَقُلْتُ لَهُ : أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَيَّ , قَالَتْ : وَأُرِيدُ أَنْ أَسْتَيْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا , قَالَتْ : فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ لِأُمِّي : يَا أُمَّتَاهُ مَاذَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ ؟ قَالَتْ : يَا بُنَيَّةُ هَوِّنِي عَلَيْكِ فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةً عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا كَثَّرْنَ عَلَيْهَا , قَالَتْ : فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ أَوَلَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا ؟ قَالَتْ : فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ , ثُمَّ أَصْبَحْتُ أَبْكِي , قَالَتْ : وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ , وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْأَلُهُمَا وَيَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ , قَالَتْ : فَأَمَّا أُسَامَةُ فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ وَبِالَّذِي يَعْلَمُ لَهُمْ فِي نَفْسِهِ , فَقَالَ أُسَامَةُ : أَهْلَكَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا , وَأَمَّا عَلِيٌّ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ يُضَيِّقْ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ وَسَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ , قَالَتْ : فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِيرَةَ فَقَالَ : " أَيْ بَرِيرَةُ هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْءٍ يَرِيبُكِ ؟ " قَالَتْ لَهُ بَرِيرَةُ : وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا قَطُّ أَغْمِصُهُ , غَيْرَ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا , فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ , قَالَتْ : فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَوْمِهِ فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : " يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِي عَنْهُ أَذَاهُ فِي أَهْلِي , وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا , وَمَا يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا مَعِي " , قَالَتْ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ أَخُو بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ , فَقَالَ : أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَعْذِرُكَ فَإِنْ كَانَ مِنْ الْأَوْسِ ضَرَبْتُ عُنُقَهُ , وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنْ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ , قَالَتْ : فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْخَزْرَجِ وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بِنْتَ عَمِّهِ مِنْ فَخِذِهِ وَهُوَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ , قَالَتْ : وَكَانَ قَبْلَ ذَلِكَ رَجُلًا صَالِحًا وَلَكِنْ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ , فَقَالَ لِسَعْدٍ : كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ , وَلَوْ كَانَ مِنْ رَهْطِكَ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ يُقْتَلَ فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدٍ , فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ : كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ , قَالَتْ : فَثَارَ الْحَيَّانِ الْأَوْسُ , وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ , قَالَتْ : فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ , قَالَتْ : فَبَكَيْتُ يَوْمِي ذَلِكَ كُلَّهُ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ , قَالَتْ : وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي , وَقَدْ بَكَيْتُ لَيْلَتَيْنِ وَيَوْمًا لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ حَتَّى إِنِّي لَأَظُنُّ أَنَّ الْبُكَاءَ فَالِقٌ كَبِدِي , فَبَيْنَا أَبَوَايَ جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي , فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَأَذِنْتُ لَهَا فَجَلَسَتْ تَبْكِي مَعِي , قَالَتْ : فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ , قَالَتْ : وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ مَا قِيلَ قَبْلَهَا وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا لَا يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي بِشَيْءٍ , قَالَتْ : فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَلَسَ , ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ , وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ , فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ " , قَالَتْ : فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً , فَقُلْتُ لِأَبِي : أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِّي فِيمَا قَالَ , فَقَالَ أَبِي : وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ لِأُمِّي : أَجِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا قَالَ , قَالَتْ أُمِّي : وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لَا أَقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ كَثِيرًا : إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَقَدْ سَمِعْتُمْ هَذَا الْحَدِيثَ حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي أَنْفُسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ , فَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ لَا تُصَدِّقُونِي , وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي مِنْهُ بَرِيئَةٌ , لَتُصَدِّقُنِّي فَوَاللَّهِ لَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ : فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ , ثُمَّ تَحَوَّلْتُ وَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي حِينَئِذٍ بَرِيئَةٌ , وَأَنَّ اللَّهَ مُبَرِّئِي بِبَرَاءَتِي , وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ مُنْزِلٌ فِي شَأْنِي وَحْيًا يُتْلَى لَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ , وَلَكِنْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا , فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجْلِسَهُ وَلَا خَرَجَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ حَتَّى أُنْزِلَ عَلَيْهِ , فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِنَ الْعَرَقِ مِثْلُ الْجُمَانِ , وَهُوَ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْهِ , قَالَتْ : فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَضْحَكُ فَكَانَتْ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ قَالَ : " يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ بَرَّأَكِ " , قَالَتْ : فَقَالَتْ لِي أُمِّي قُومِي إِلَيْهِ , فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ فَإِنِّي لَا أَحْمَدُ إِلَّا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ , قَالَتْ : وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ سورة النور آية 11 الْعَشْرَ الْآيَاتِ , ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ هَذَا فِي بَرَاءَتِي , قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ : وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَفَقْرِهِ , وَاللَّهِ لَا أُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي قَالَ لِعَائِشَةَ مَا قَالَ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ : وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22 قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ : بَلَى وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ , وَقَالَ : وَاللَّهِ لَا أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا , قَالَتْ عَائِشَةُ : وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ عَنْ أَمْرِي , فَقَالَ لِزَيْنَبَ : " مَاذَا عَلِمْتِ أَوْ رَأَيْتِ ؟ " فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَيْرًا , قَالَتْ عَائِشَةُ : وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ , قَالَتْ : وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ تُحَارِبُ لَهَا فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ , قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنِي مِنْ حَدِيثِ هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ , ثُمَّ قَالَ عُرْوَةُ : قَالَتْ عَائِشَةُ : وَاللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ مَا قِيلَ لَيَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ , فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا كَشَفْتُ مِنْ كَنَفِ أُنْثَى قَطُّ , قَالَتْ : ثُمَّ قُتِلَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ .

English Translation

Narrated `Aisha: Whenever Allah's Apostle intended to go on a journey, he used to draw lots amongst his wives, and Allah's Apostle used to take with him the one on whom lot fell. He drew lots amongst us during one of the Ghazwat which he fought. The lot fell on me and so I proceeded with Allah's Apostle after Allah's order of veiling (the women) had been revealed. I was carried (on the back of a camel) in my howdah and carried down while still in it (when we came to a halt). So we went on till Allah's Apostle had finished from that Ghazwa of his and returned. When we approached the city of Medina he announced at night that it was time for departure. So when they announced the news of departure, I got up and went away from the army camps, and after finishing from the call of nature, I came back to my riding animal. I touched my chest to find that my necklace which was made of Zifar beads (i.e. Yemenite beads partly black and partly white) was missing. So I returned to look for my necklace and my search for it detained me. (In the meanwhile) the people who used to carry me on my camel, came and took my howdah and put it on the back of my camel on which I used to ride, as they considered that I was in it. In those days women were light in weight for they did not get fat, and flesh did not cover their bodies in abundance as they used to eat only a little food. Those people therefore, disregarded the lightness of the howdah while lifting and carrying it; and at that time I was still a young girl. They made the camel rise and all of them left (along with it). I found my necklace after the army had gone. Then I came to their camping place to find no call maker of them, nor one who would respond to the call. So I intended to go to the place where I used to stay, thinking that they would miss me and come back to me (in my search). While I was sitting in my resting place, I was overwhelmed by sleep and slept. Safwan bin Al-Muattal As-Sulami Adh-Dhakwani was behind the army. When he reached my place in the morning, he saw the figure of a sleeping person and he recognized me on seeing me as he had seen me before the order of compulsory veiling (was prescribed). So I woke up when he recited Istirja' (i.e. "Inna li l-lahi wa inna llaihi raji'un") as soon as he recognized me. I veiled my face with my head cover at once, and by Allah, we did not speak a single word, and I did not hear him saying any word besides his Istirja'. He dismounted from his camel and made it kneel down, putting his leg on its front legs and then I got up and rode on it. Then he set out leading the camel that was carrying me till we overtook the army in the extreme heat of midday while they were at a halt (taking a rest). (Because of the event) some people brought destruction upon themselves and the one who spread the Ifk (i.e. slander) more, was `Abdullah bin Ubai Ibn Salul." (Urwa said, "The people propagated the slander and talked about it in his (i.e. `Abdullah's) presence and he confirmed it and listened to it and asked about it to let it prevail." `Urwa also added, "None was mentioned as members of the slanderous group besides (`Abdullah) except Hassan bin Thabit and Mistah bin Uthatha and Hamna bint Jahsh along with others about whom I have no knowledge, but they were a group as Allah said. It is said that the one who carried most of the slander was `Abdullah bin Ubai bin Salul." `Urwa added, "`Aisha disliked to have Hassan abused in her presence and she used to say, 'It was he who said: My father and his (i.e. my father's) father and my honor are all for the protection of Muhammad's honor from you."). `Aisha added, "After we returned to Medina, I became ill for a month. The people were propagating the forged statements of the slanderers while I was unaware of anything of all that, but I felt that in my present ailment, I was not receiving the same kindness from Allah's Apostle as I used to receive when I got sick. (But now) Allah's Apostle would only come, greet me and say,' How is that (lady)?' and leave. That roused my doubts, but I did not discover the evil (i.e. slander) till I went out after my convalescence, I went out with Um Mistah to Al-Manasi' where we used to answer the call of nature and we used not to go out (to answer the call of nature) except at night, and that was before we had latrines near our houses. And this habit of our concerning evacuating the bowels, was similar to the habits of the old 'Arabs living in the deserts, for it would be troublesome for us to take latrines near our houses. So I and Um Mistah who was the daughter of Abu Ruhm bin Al-Muttalib bin `Abd Manaf, whose mother was the daughter of Sakhr bin 'Amir and the aunt of Abu Bakr As-Siddiq and whose son was Mistah bin Uthatha bin `Abbas bin Al-Muttalib, went out. I and Um Mistah returned to my house after we finished answering the call of nature. Um Mistah stumbled by getting her foot entangled in her covering sheet and on that she said, 'Let Mistah be ruined!' I said, 'What a hard word you have said. Do you abuse a man who took part in the battle of Badr?' On that she said, 'O you Hantah! Didn't you hear what he (i.e. Mistah) said? 'I said, 'What did he say?' Then she told me the slander of the people of Ifk. So my ailment was aggravated, and when I reached my home, Allah's Apostle came to me, and after greeting me, said, 'How is that (lady)?' I said, 'Will you allow me to go to my parents?' as I wanted to be sure about the news through them. Allah's Apostle allowed me (and I went to my parents) and asked my mother, 'O mother! What are the people talking about?' She said, 'O my daughter! Don't worry, for scarcely is there a charming woman who is loved by her husband and whose husband has other wives besides herself that they (i.e. women) would find faults with her.' I said, 'Subhan-Allah! (I testify the uniqueness of Allah). Are the people really talking in this way?' I kept on weeping that night till dawn I could neither stop weeping nor sleep then in the morning again, I kept on weeping. When the Divine Inspiration was delayed. Allah's Apostle called `Ali bin Abi Talib and Usama bin Zaid to ask and consult them about divorcing me. Usama bin Zaid said what he knew of my innocence, and the respect he preserved in himself for me. Usama said, '(O Allah's Apostle!) She is your wife and we do not know anything except good about her.' `Ali bin Abi Talib said, 'O Allah's Apostle! Allah does not put you in difficulty and there are plenty of women other than she, yet, ask the maid-servant who will tell you the truth.' On that Allah's Apostle called Barira (i.e. the maid-servant) and said, 'O Barira! Did you ever see anything which aroused your suspicion?' Barira said to him, 'By Him Who has sent you with the Truth. I have never seen anything in her (i.e. Aisha) which I would conceal, except that she is a young girl who sleeps leaving the dough of her family exposed so that the domestic goats come and eat it.' So, on that day, Allah's Apostle got up on the pulpit and complained about `Abdullah bin Ubai (bin Salul) before his companions, saying, 'O you Muslims! Who will relieve me from that man who has hurt me with his evil statement about my family? By Allah, I know nothing except good about my family and they have blamed a man about whom I know nothing except good and he used never to enter my home except with me.' Sa`d bin Mu`adh the brother of Banu `Abd Al-Ashhal got up and said, 'O Allah's Apostle! I will relieve you from him; if he is from the tribe of Al-Aus, then I will chop his head off, and if he is from our brothers, i.e. Al-Khazraj, then order us, and we will fulfill your order.' On that, a man from Al-Khazraj got up. Um Hassan, his cousin, was from his branch tribe, and he was Sa`d bin Ubada, chief of Al-Khazraj. Before this incident, he was a pious man, but his love for his tribe goaded him into saying to Sa`d (bin Mu`adh). 'By Allah, you have told a lie; you shall not and cannot kill him. If he belonged to your people, you would not wish him to be killed.' On that, Usaid bin Hudair who was the cousin of Sa`d (bin Mu`adh) got up and said to Sa`d bin 'Ubada, 'By Allah! You are a liar! We will surely kill him, and you are a hypocrite arguing on the behalf of hypocrites.' On this, the two tribes of Al-Aus and Al Khazraj got so much excited that they were about to fight while Allah's Apostle was standing on the pulpit. Allah's Apostle kept on quietening them till they became silent and so did he. All that day I kept on weeping with my tears never ceasing, and I could never sleep. In the morning my parents were with me and I wept for two nights and a day with my tears never ceasing and I could never sleep till I thought that my liver would burst from weeping. So, while my parents were sitting with me and I was weeping, an Ansari woman asked me to grant her admittance. I allowed her to come in, and when she came in, she sat down and started weeping with me. While we were in this state, Allah's Apostle came, greeted us and sat down. He had never sat with me since that day of the slander. A month had elapsed and no Divine Inspiration came to him about my case. Allah's Apostle then recited Tashah-hud and then said, 'Amma Badu, O `Aisha! I have been informed so-andso about you; if you are innocent, then soon Allah will reveal your innocence, and if you have committed a sin, then repent to Allah and ask Him for forgiveness for when a slave confesses his sins and asks Allah for forgiveness, Allah accepts his repentance.' (continued...) (continuing... 1): -5.462:... ... When Allah's Apostle finished his speech, my tears ceased flowing completely that I no longer felt a single drop of tear flowing. I said to my father, 'Reply to Allah's Apostle on my behalf concerning what he has said.' My father said, 'By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle .' Then I said to my mother, 'Reply to Allah's Apostle on my behalf concerning what he has said.' She said, 'By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle.' In spite of the fact that I was a young girl and had a little knowledge of Qur'an, I said, 'By Allah, no doubt I know that you heard this (slanderous) speech so that it has been planted in your hearts (i.e. minds) and you have taken it as a truth. Now if I tell you that I am innocent, you will not believe me, and if confess to you about it, and Allah knows that I am innocent, you will surely believe me. By Allah, I find no similitude for me and you except that of Joseph's father when he said, '(For me) patience in the most fitting against that which you assert; it is Allah (Alone) Whose Help can be sought.' Then I turned to the other side and lay on my bed; and Allah knew then that I was innocent and hoped that Allah would reveal my innocence. But, by Allah, I never thought that Allah would reveal about my case, Divine Inspiration, that would be recited (forever) as I considered myself too unworthy to be talked of by Allah with something of my concern, but I hoped that Allah's Apostle might have a dream in which Allah would prove my innocence. But, by Allah, before Allah's Apostle left his seat and before any of the household left, the Divine inspiration came to Allah's Apostle. So there overtook him the same hard condition which used to overtake him, (when he used to be inspired Divinely). The sweat was dropping from his body like pearls though it was a wintry day and that was because of the weighty statement which was being revealed to him. When that state of Allah's Apostle was over, he got up smiling, and the first word he said was, 'O `Aisha! Allah has declared your innocence!' Then my Mother said to me, 'Get up and go to him (i.e. Allah's Apostle). I replied, 'By Allah, I will not go to him, and I praise none but Allah. So Allah revealed the ten Verses:- - "Verily! They who spread the slander Are a gang, among you............." (24.11-20) Allah revealed those Qur'anic Verses to declare my innocence. Abu Bakr As-Siddiq who used to disburse money for Mistah bin Uthatha because of his relationship to him and his poverty, said, 'By Allah, I will never give to Mistah bin Uthatha anything after what he has said about Aisha.' Then Allah revealed:-- "And let not those among you who are good and wealthy swear not to give (any sort of help) to their kinsmen, those in need, and those who have left their homes for Allah's cause, let them pardon and forgive. Do you not love that Allah should forgive you? And Allah is oft-Forgiving Most Merciful." (24.22) Abu Bakr As-Siddiq said, 'Yes, by Allah, I would like that Allah forgive me.' and went on giving Mistah the money he used to give him before. He also added, 'By Allah, I will never deprive him of it at all.' Aisha further said:." Allah's Apostle also asked Zainab bint Jahsh (i.e. his wife) about my case. He said to Zainab, 'What do you know and what did you see?" She replied, "O Allah's Apostle! I refrain from claiming falsely that I have heard or seen anything. By Allah, I know nothing except good (about `Aisha).' From amongst the wives of the Prophet Zainab was my peer (in beauty and in the love she received from the Prophet) but Allah saved her from that evil because of her piety. Her sister Hamna, started struggling on her behalf and she was destroyed along with those who were destroyed. The man who was blamed said, 'Subhan-Allah! By Him in Whose Hand my soul is, I have never uncovered the cover (i.e. veil) of any female.' Later on the man was martyred in Allah's Cause."

Your Comments/Thoughts ?

غزوات کے بیان میں سے مزید احادیث

حدیث نمبر 4056

´ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ` غزوہ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4163

´ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ ان سے اسرائیل نے ‘ ان سے طارق بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ` حج کے ارادے سے جاتے ہوئے میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جو نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون سی مسجد ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ وہی درخت ہے جہاں رسول ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4356

´ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعد قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، کہا مجھ سے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم مجھے ذوالخلصہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4302

´ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے ‘ ایوب نے کہا کہ` مجھ سے ابوقلابہ نے کہا ‘ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ابوقلابہ نے کہا کہ پھر میں ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4246

´اور عبدالعزیز بن محمد نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالمجید نے بیان کیا ‘ ان سے سعید نے بیان کیا اور ان سے ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے خاندان بنی عدی کے بھائی کو خیبر بھیجا اور انہیں وہاں کا عامل مقرر کیا اور عبدالمجید ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4106

´مجھ سے احمد بن عثمان نے بیان کیا کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ان سے ابواسحاق سبیعی نے کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ` غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4232

´ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ مجھ سے اس حدیث کو باربار سنتے تھے۔ ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب میرے اشعری احباب رات میں آتے ہیں تو میں ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4466

´ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ` جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر تریسٹھ سال کی تھی۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4189

´ہم سے حسن بن اسحاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے محمد بن سابق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک بن مغول نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابوحصین سے سنا ‘ ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ` سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ جب جنگ صفین (جو علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ میں ہوئی تھی) سے واپس آئے تو ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4148

´ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے اور سوا اس عمرے کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ کیا ‘ تمام عمرے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 3969

´ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ہم سے ہشیم نے بیان کیا، ہم کو ابوہاشم نے خبر دی، انہیں ابومجلز نے، انہیں قیس نے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ قسمیہ کہتے تھے کہ` یہ آیت «هذان خصمان اختصموا في ربهم» ان کے بارے میں اتری جو بدر کی لڑائی میں مقابلے کے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4090

´مجھ سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دشمنوں کے مقابل مدد چاہی۔ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4076

´مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس شخص پر نازل ہوا جسے اللہ کے نبی نے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4319

´ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے (محمد بن عبداللہ بن شہاب نے) بیان ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4116

´ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر اور نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوے، حج یا عمرے سے واپس آتے تو سب سے پہلے تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے۔ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4255

´ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے ‘ انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ` جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا تو ہم آپ پر آڑ کئے ہوئے مشرکین کے لڑکوں اور مشرکین سے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4129

´ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے ‘ ان سے یزید بن رومان نے ‘ ان سے صالح بن خوات نے ‘ ایک ایسے صحابی سے بیان کیا` جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں شریک تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف پڑھی تھی۔ اس ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4285

´ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حنین کا ارادہ کیا تو فرمایا ان شاءاللہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4170

´مجھ سے احمد بن اشکاب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا ‘ ان سے علاء بن مسیب نے ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ` میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ‘ مبارک ہو! آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت نصیب ہوئی اور نبی کریم ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4022

´ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن فضیل سے سنا، انہوں نے اسماعیل ابن ابی خالد سے، انہوں نے قیس بن ابی حازم سے کہ` بدری صحابہ کا (سالانہ) وظیفہ پانچ پانچ ہزار تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں انہیں (بدری صحابہ کو) ان صحابیوں پر فضیلت دوں ..مکمل حدیث پڑھیئے