Hadith no 4726 Of Sahih Bukhari Chapter Quran Pak Ki Tafseer Ke Bayan May (Commentary.)

Read Sahih Bukhari Hadith No 4726 - Hadith No 4726 is from Commentary , Quran Pak Ki Tafseer Ke Bayan May Chapter in the Sahih Bukhari Hadees Book, which is written by Imam Bukhari. Hadith # 4726 of Imam Bukhari covers the topic of Commentary briefly in Sahih Bukhari. You can read Hadith No 4726 from Commentary in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.

صحیح بخاری - حدیث نمبر 4726

Hadith No 4726
Book Name Sahih Bukhari
Book Writer Imam Bukhari
Writer Death 256 ھ
Chapter Name Commentary.
Roman Name Quran Pak Ki Tafseer Ke Bayan May
Arabic Name التفسير
Urdu Name قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں

Urdu Translation

´ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریر نے خبر دی، کہا کہ` مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے خبر دی سعید بن جبیر سے، دونوں میں سے ایک اپنے ساتھی اور دیگر راوی کے مقابلہ میں بعض الفاظ زیادہ کہتا ہے اور ان کے علاوہ ایک اور صاحب نے بھی سعید بن جبیر سے سن کر بیان کیا کہ انہوں نے کہا ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں ان کے گھر حاضر تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ دین کی باتیں مجھ سے کچھ پوچھو۔ میں نے عرض کیا: اے ابوعباس! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے کوفہ میں ایک واعظ شخص نوف نامی (نوف بکالی) ہے اور وہ کہتا ہے کہ موسیٰ، خضر علیہ السلام سے ملنے والے وہ نہیں تھے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں (ابن جریج نے بیان کیا کہ) عمرو بن دینار نے تو روایت اس طرح بیان کی کہ ابن عباس نے کہا دشمن خدا جھوٹی بات کہتا ہے اور یعلیٰ بن مسلم نے اپنی روایت میں اس طرح مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول تھے ایک دن آپ نے لوگوں (بنی اسرائیل) کو ایسا وعظ فرمایا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور دل پسیج گئے تو آپ واپس جانے کے لیے مڑے۔ اس وقت ایک شخص نے ان سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس پر اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر عتاب نازل کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی تھی۔ (ان کو یوں کہنا چاہئے تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے)۔ ان سے کہا گیا کہ ہاں تم سے بھی بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے پروردگار! وہ کہاں ہے۔ اللہ نے فرمایا جہاں (فارس اور روم کے) دو دریا ملے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! میرے لیے ان کی کوئی نشانی ایسی بتلا دے کہ میں ان تک پہنچ جاؤں۔ اب عمرو بن دینار نے مجھ سے اپنی روایت اس طرح بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جہاں تم سے مچھلی تمہاری زنبیل سے چل دے (وہیں وہ ملیں گے) اور یعلیٰ نے حدیث اس طرح بیان کی کہ ایک مردہ مچھلی ساتھ لے لو، جہاں اس مچھلی میں جان پڑ جائے (وہیں وہ ملیں گے) موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی ساتھ لے لی اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لیا۔ آپ نے اپنے ساتھی یوشع سے فرمایا کہ میں بس تمہیں اتنی تکلیف دیتا ہوں کہ جب یہ مچھلی زنبیل سے نکل کر چل دے تو مجھے بتانا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ کون سی بڑی تکلیف ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وإذ قال موسى لفتاه‏» میں وہ «فتي» (رفیق سفر) یوشع ابن نون تھے۔ سعید بن جبیر (راوی حدیث) نے اپنی روایت میں یوشع بن نون کا نام نہیں لیا۔ بیان کیا کہ پھر موسیٰ علیہ السلام ایک چٹان کے سایہ میں ٹھہر گئے جہاں نمی اور ٹھنڈ تھی۔ اس وقت مچھلی تڑپی اور دریا میں کود گئی۔ موسیٰ علیہ السلام سو رہے تھے اس لیے یوشع نے سوچا کہ آپ کو جگانا نہ چاہئے۔ لیکن جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو مچھلی کا حال کہنا بھول گئے۔ اسی عرصہ میں مچھلی تڑپ کر پانی میں چلی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی جگہ پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور مچھلی کا نشان پتھر پر جس پر سے گئی تھی بن گیا۔ عمرو بن دینار نے مجھ (ابن جریج) سے بیان کیا کہ اس کا نشان پتھر پہ بن گیا اور دونوں انگوٹھوں اور کلمہ کی انگلیوں کو ملا کر ایک حلقہ کی طرح اس کو بتایا۔ بیدار ہونے کے بعد موسیٰ علیہ السلام باقی دن اور باقی رات چلتے رہے۔ آخر کہنے لگے۔ ہمیں اب اس سفر میں تھکن ہو رہی ہے۔ ان کے خادم نے عرض کیا۔ اللہ نے آپ کی تھکن کو دور کر دیا ہے (اور مچھلی زندہ ہو گئی ہے)۔ ابن جریج نے بیان کیا کہ یہ ٹکڑا سعید بن جبیر کی روایت میں نہیں ہے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام اور یوشع دونوں واپس لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی (ابن جریج نے کہا) مجھ سے عثمان بن ابی سلیمان نے بیان کیا کہ خضر علیہ السلام دریا کے بیچ میں ایک چھوٹے سے سبز زین پوش پر تشریف رکھتے تھے۔ اور سعید بن جبیر نے یوں بیان کیا کہ وہ اپنے کپڑے سے تمام جسم لپیٹے ہوئے تھے۔ کپڑے کا ایک کنارہ ان کے پاؤں کے نیچے تھا اور دوسرا سر کے تلے تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے پہنچ کو سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے اپنا چہرہ کھولا اور کہا، میری اس زمین میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا۔ آپ کون ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا، موسیٰ بنی اسرائیل؟ فرمایا کہ ہاں! پوچھا، آپ کیوں آئے ہیں؟ فرمایا کہ میرے آنے کا مقصد یہ ہے کہ جو ہدایت کا علم آپ کو اللہ نے دیا ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔ اس پر خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ موسیٰ کیا آپ کے لیے یہ کافی نہیں ہے اس کا پورا سیکھنا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کو جو علم حاصل ہے اس کا پورا سیکھنا میرے لیے مناسب نہیں۔ اس عرصہ میں ایک چڑیا نے اپنی چونچ سے دریا کا پانی لیا تو خضر علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی قسم! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے۔ جتنا اس چڑیا نے دریا کا پانی اپنی چونچ میں لیا ہے۔ کشتی پر چڑھنے کے وقت انہوں نے چھوٹی چھوٹی کشتیاں دیکھیں جو ایک کنارے والوں کو دوسرے کنارے پر لے جا کر چھوڑ آتی تھیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کہا کہ یہ اللہ کے صالح بندے ہیں ہم ان سے کرایہ نہیں لیں گے۔ لیکن خضر علیہ السلام نے کشتی میں شگاف کر دیئے اور اس میں (تختوں کی جگہ) کیلیں گاڑ دیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ نے اس لیے اسے پھاڑ ڈالا کہ اس کے مسافروں کو ڈبو دیں۔ بلاشبہ آپ نے ایک بڑا ناگوار کام کیا ہے۔ مجاہد نے آیت میں «إمرا» کا ترجمہ «منكرا» کیا ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا میں نے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام کا پہلا سوال تو بھولنے کی وجہ سے تھا لیکن دوسرا بطور شرط تھا اور تیسرا قصداً انہوں نے کیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس پہلے سوال پر کہا کہ جو میں بھول گیا اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کیجئے اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کیجئے۔ پھر انہیں ایک بچہ ملا تو خضر علیہ السلام نے اسے قتل کر دیا۔ یعلیٰ نے بیان کیا کہ سعید بن جبیر نے کہا کہ خضر علیہ السلام کو چند بچے ملے جو کھیل رہے تھے آپ نے ان میں سے ایک بچہ کو پکڑا جو کافر اور چالاک تھا اور اسے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، آپ نے بلا کسی خون کے ایک بےگناہ جان کو جس نے کہ برا کام نہیں کیا تھا، قتل کر ڈالا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما آیت میں «زكية» کی جگہ «زاكية» پڑھا کرتے تھے۔ بمعنی «مسلمة» جیسے «غلاما زكيا» میں ہے۔ پھر وہ دونوں بزرگ آگے بڑھے تو ایک دیوار پر نظر پڑی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اسے ٹھیک کر دیا۔ سعید بن جبیر نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ اس طرح۔ یعلیٰ بن مسلم نے بیان کیا میرا خیال ہے کہ سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ خضر نے دیوار پر ہاتھ پھیر کر اسے ٹھیک کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ سعید بن جبیر نے اس کی تشریح کی کہ اجرت جسے ہم کھا سکتے۔ آیت «وكان وراءهم» کی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے قرآت «وكان أمامهم» کی یعنی کشتی جہاں جا رہی تھی اس ملک میں ایک بادشاہ تھا۔ سعید کے سوا دوسرے راوی سے اس بادشاہ کا نام ہدد بن بدد نقل کرتے ہیں اور جس بچہ کو خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا اس کا نام لوگ جیسور بیان کرتے ہیں۔ وہ بادشاہ ہر (نئی) کشتی کو زبردستی چھین لیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے چاہا کہ جب یہ کشتی اس کے سامنے سے گزرے تو اس کے اس عیب کی وجہ سے اسے نہ چھینے۔ جب کشتی والے اس بادشاہ کی سلطنت سے گزر جائیں گے تو وہ خود اسے ٹھیک کر لیں گے اور اسے کام میں لاتے رہیں گے۔ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ انہوں نے کشتی کو پھر سیسہ لگا کر جوڑا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ تار کول سے جوڑا تھا (اور جس بچہ کو قتل کر دیا تھا) تو اس کے والدین مومن تھے اور وہ بچہ (اللہ کی تقدیر میں) کافر تھا۔ اس لیے ہمیں ڈر تھا کہ کہیں (بڑا ہو کر) وہ انہیں بھی کفر میں مبتلا نہ کر دے کہ اپنے لڑکے سے انتہائی محبت انہیں اس کے دین کی اتباع پر مجبور کر دے۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ اللہ اس کے بدلے میں انہیں کوئی نیک اور اس سے بہتر اولاد دے۔ «وأقرب رحما» یعنی اس کے والدین اس بچہ پر جو اب اللہ تعالیٰ انہیں دے گا پہلے سے زیادہ بہتر مہربان ہوں جسے خضر علیہ السلام نے قتل کر دیا ہے۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان والدین کو اس بچے کے بدلے ایک لڑکی دی گئی تھی۔ داود بن ابی عاصم رحمہ اللہ کئی راویوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لڑکی ہی تھی۔

Hadith in Arabic

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ وَغَيْرُهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ : إِنَّا لَعِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي بَيْتِهِ ، إِذْ قَالَ : سَلُونِي ؟ قُلْتُ : أَيْ أَبَا عَبَّاسٍ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ بِالْكُوفَةِ رَجُلٌ قَاصٌّ يُقَالُ لَهُ نَوْفٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ ، أَمَّا عَمْرٌو ، فَقَالَ لِي : قَالَ قَدْ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ وَأَمَّا يَعْلَى ، فَقَالَ لِي : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مُوسَى رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام ، قَالَ : ذَكَّرَ النَّاسَ يَوْمًا حَتَّى إِذَا فَاضَتِ الْعُيُونُ ، وَرَقَّتِ الْقُلُوبُ وَلَّى ، فَأَدْرَكَهُ رَجُلٌ ، فَقَالَ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ ، هَلْ فِي الْأَرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنْكَ ؟ قَالَ : لَا ، فَعَتَبَ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ ، قِيلَ : بَلَى ، قَالَ : أَيْ رَبِّ فَأَيْنَ ؟ قَالَ : بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ ، قَالَ : أَيْ رَبِّ اجْعَلْ لِي عَلَمًا أَعْلَمُ ذَلِكَ بِهِ ، فَقَالَ لِي عَمْرٌو : قَالَ حَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ ، وَقَالَ لِي يَعْلَى : قَالَ : خُذْ نُونًا مَيِّتًا حَيْثُ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ ، فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ ، فَقَالَ لِفَتَاهُ : لَا أُكَلِّفُكَ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنِي بِحَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ ، قَالَ : مَا كَلَّفْتَ كَثِيرًا ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ : وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ سورة الكهف آية 60 يُوشَعَ بْنِ نُونٍ لَيْسَتْ ، عَنْ سَعِيدٍ ، قَالَ : فَبَيْنَمَا هُوَ فِي ظِلِّ صَخْرَةٍ فِي مَكَانٍ ثَرْيَانَ إِذْ تَضَرَّبَ الْحُوتُ وَمُوسَى نَائِمٌ ، فَقَالَ فَتَاهُ : لَا أُوقِظُهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ أَنْ يُخْبِرَهُ ، وَتَضَرَّبَ الْحُوتُ حَتَّى دَخَلَ الْبَحْرَ ، فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْبَحْرِ حَتَّى كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ ، قَالَ لِي عَمْرٌو : هَكَذَا كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ ، وَحَلَّقَ بَيْنَ إِبْهَامَيْهِ ، وَاللَّتَيْنِ تَلِيَانِهِمَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا ، قَالَ : قَدْ قَطَعَ اللَّهُ عَنْكَ النَّصَبَ لَيْسَتْ هَذِهِ عَنْ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ ، فَرَجَعَا فَوَجَدَا خَضِرًا ، قَالَ لِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ : عَلَى طِنْفِسَةٍ خَضْرَاءَ عَلَى كَبِدِ الْبَحْرِ ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ : مُسَجًّى بِثَوْبِهِ قَدْ جَعَلَ طَرَفَهُ تَحْتَ رِجْلَيْهِ ، وَطَرَفَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى ، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ، وَقَالَ : هَلْ بِأَرْضِي مِنْ سَلَامٍ مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : أَنَا مُوسَى ، قَالَ مُوسَى : بَنِي إِسْرَائِيلَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَمَا شَأْنُكَ ؟ قَالَ : جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا ، قَالَ : أَمَا يَكْفِيكَ أَنَّ التَّوْرَاةَ بِيَدَيْكَ ، وَأَنَّ الْوَحْيَ يَأْتِيكَ يَا مُوسَى ، إِنَّ لِي عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَعْلَمَهُ ، وَإِنَّ لَكَ عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَعْلَمَهُ ، فَأَخَذَ طَائِرٌ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ ، وَقَالَ : وَاللَّهِ مَا عِلْمِي وَمَا عِلْمُكَ فِي جَنْبِ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَمَا أَخَذَ هَذَا الطَّائِرُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ ، حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ وَجَدَا مَعَابِرَ صِغَارًا تَحْمِلُ أَهْلَ هَذَا السَّاحِلِ إِلَى أَهْلِ هَذَا السَّاحِلِ الْآخَرِ عَرَفُوهُ ، فَقَالُوا : عَبْدُ اللَّهِ الصَّالِحُ ، قَالَ : قُلْنَا لِسَعِيدٍ : خَضِرٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، لَا نَحْمِلُهُ بِأَجْرٍ ، فَخَرَقَهَا وَوَتَدَ فِيهَا وَتِدًا ، قَالَ مُوسَى : أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا ، لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا ، قَالَ مُجَاهِدٌ : مُنْكَرًا ، قَالَ : أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا ؟ كَانَتِ الْأُولَى نِسْيَانًا ، وَالْوُسْطَى شَرْطًا ، وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا ، قَالَ : لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ ، وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا لَقِيَا غُلَامًا ، فَقَتَلَهُ ، قَالَ يَعْلَى : قَالَ سَعِيدٌ : وَجَدَ غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ ، فَأَخَذَ غُلَامًا كَافِرًا ظَرِيفًا ، فَأَضْجَعَهُ ، ثُمَّ ذَبَحَهُ بِالسِّكِّينِ ، قَالَ : أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَمْ تَعْمَلْ بِالْحِنْثِ ، وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَرَأَهَا زَكِيَّةً زَاكِيَةً مُسْلِمَةً كَقَوْلِكَ غُلَامًا زَكِيًّا ، فَانْطَلَقَا فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ ، فَأَقَامَهُ ، قَالَ سَعِيدٌ : بِيَدِهِ هَكَذَا وَرَفَعَ يَدَهُ ، فَاسْتَقَامَ ، قَالَ يَعْلَى : حَسِبْتُ أَنَّ سَعِيدًا ، قَالَ : فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ ، فَاسْتَقَامَ ، لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا ، قَالَ سَعِيدٌ : أَجْرًا نَأْكُلُهُ ، وَكَانَ وَرَاءَهُمْ ، وَكَانَ أَمَامَهُمْ ، قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَزْعُمُونَ عَنْ غَيْرِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ هُدَدُ بْنُ بُدَدَ وَالْغُلَامُ الْمَقْتُولُ اسْمُهُ يَزْعُمُونَ جَيْسُورٌ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ، فَأَرَدْتُ إِذَا هِيَ مَرَّتْ بِهِ أَنْ يَدَعَهَا لِعَيْبِهَا ، فَإِذَا جَاوَزُوا أَصْلَحُوهَا ، فَانْتَفَعُوا بِهَا ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ : سَدُّوهَا بِقَارُورَةٍ ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ : بِالْقَارِ كَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ ، وَكَانَ كَافِرًا فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا أَنْ يَحْمِلَهُمَا حُبُّهُ عَلَى أَنْ يُتَابِعَاهُ عَلَى دِينِهِ ، فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً ، لِقَوْلِهِ : أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا هُمَا بِهِ أَرْحَمُ مِنْهُمَا بِالْأَوَّلِ الَّذِي قَتَلَ خَضِرٌ ، وَزَعَمَ غَيْرُ سَعِيدٍ أَنَّهُمَا أُبْدِلَا جَارِيَةً ، وَأَمَّا دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ ، فَقَالَ : عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ إِنَّهَا جَارِيَةٌ " .

English Translation

Narrated Ibn Juraij: Ya`la bin Muslim and `Amr bin Dinar and some others narrated the narration of Sa`id bin Jubair. Narrated Sa`id: While we were at the house of Ibn `Abbas, Ibn `Abbas said, "Ask me (any question)" I said, "O Abu `Abbas! May Allah let me be sacrificed for you ! There is a man at Kufa who is a storyteller called Nauf; who claims that he (Al-Khadir's companion) is not Moses of Bani Israel." As for `Amr, he said to me, "Ibn `Abbas said, "(Nauf) the enemy of Allah told a lie." But Ya`la said to me, "Ibn `Abbas said, Ubai bin Ka`b said, Allah's Messenger said, 'Once Moses, Allah's Messenger , preached to the people till their eyes shed tears and their hearts became tender, whereupon he finished his sermon. Then a man came to Moses and asked, 'O Allah's Messenger ! Is there anyone on the earth who is more learned than you?' Moses replied, 'No.' So Allah admonished him (Moses), for he did not ascribe all knowledge to Allah. It was said, (on behalf of Allah), 'Yes, (there is a slave of ours who knows more than you ).' Moses said, 'O my Lord! Where is he?' Allah said, 'At the junction of the two seas.' Moses said, 'O my Lord ! Tell I me of a sign whereby I will recognize the place.' " `Amr said to me, Allah said, "That place will be where the fish will leave you." Ya`la said to me, "Allah said (to Moses), 'Take a dead fish (and your goal will be) the place where it will become alive.' " So Moses took a fish and put it in a basket and said to his boy-servant "I don't want to trouble you, except that you should inform me as soon as this fish leaves you." He said (to Moses)." You have not demanded too much." And that is as mentioned by Allah: 'And (remember) when Moses said to his attendant .... ' (18.60) Yusha` bin Noon. (Sa`id did not state that). The Prophet said, "While the attendant was in the shade of the rock at a wet place, the fish slipped out (alive) while Moses was sleeping. His attend an said (to himself), "I will not wake him, but when he woke up, he forgot to tell him The fish slipped out and entered the sea. Allah stopped the flow of the sea. where the fish was, so that its trace looked as if it was made on a rock. `Amr forming a hole with his two thumbs an index fingers, said to me, "Like this, as in its trace was made on a rock." Moses said "We have suffered much fatigue on this journey of ours." (This was not narrated by Sa`id). Then they returned back and found Al-Khadir. `Uthman bin Abi Sulaiman said to me, (they found him) on a green carpet in the middle of the sea. Al-Khadir was covered with his garment with one end under his feet and the other end under his head. When Moses greeted, he uncovered his face and said astonishingly, 'Is there such a greeting in my land? Who are you?' Moses said, 'I am Moses.' Al- Khadir said, 'Are you the Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes.' Al-Khadir said, "What do you want?' Moses said, ' I came to you so that you may teach me of the truth which you were taught.' Al- Khadir said, 'Is it not sufficient for you that the Torah is in your hands and the Divine Inspiration comes to you, O Moses? Verily, I have a knowledge that you ought not learn, and you have a knowledge which I ought not learn.' At that time a bird took with its beak (some water) from the sea: Al-Khadir then said, 'By Allah, my knowledge and your knowledge besides Allah's Knowledge is like what this bird has taken with its beak from the sea.' Until, when they went on board the boat (18.71). They found a small boat which used to carry the people from this sea-side to the other sea-side. The crew recognized Al-Khadir and said, 'The pious slave of Allah.' (We said to Sa`id "Was that Khadir?" He said, "Yes.") The boat men said, 'We will not get him on board with fare.' Al-Khadir scuttled the boat and then plugged the hole with a piece o wood. Moses said, 'Have you scuttle it in order to drown these people surely, you have done a dreadful thing. (18.71) (Mujahid said. "Moses said so protestingly.") Al-Khadir said, didn't I say that you can have no patience with me?' (18.72) The first inquiry of Moses was done because of forget fullness, the second caused him to be bound with a stipulation, and the third was done he intentionally. Moses said, 'Call me not to account for what I forgot and be not hard upon me for my affair (with you).' (18.73) (Then) they found a boy and Al-Khadir killed him. Ya`la- said: Sa`id said 'They found boys playing and Al-Khadir got hold of a handsome infidel boy laid him down and then slew him with knife. Moses said, 'Have you killed a innocent soul who has killed nobody' (18.74) Then they proceeded and found a wall which was on the point of falling down, and Al-Khadir set it up straight Sa`id moved his hand thus and said 'Al-Khadir raised his hand and the wall became straight. Ya`la said, 'I think Sa`id said, 'Al-Khadir touched the wall with his hand and it became straight (Moses said to Al-Khadir), 'If you had wished, you could have taken wages for it. Sa`id said, 'Wages that we might had eaten.' And there was a king in furor (ahead) of them" (18.79) And there was in front of them. Ibn `Abbas recited: 'In front of them (was) a king.' It is said on the authority of somebody other than Sa`id that the king was Hudad bin Budad. They say that the boy was called Haisur. 'A king who seized every ship by force. (18.79) So I wished that if that boat passed by him, he would leave it because of its defect and when they have passed they would repair it and get benefit from it. Some people said that they closed that hole with a bottle, and some said with tar. 'His parents were believers, and he (the boy) was a non-believer and we(Khadir) feared lest he would oppress them by obstinate rebellion and disbelief.' (18.80) (i.e. that their love for him would urge them to follow him in his religion, 'so we (Khadir) desired that their Lord should change him for them for one better in righteousness and near to mercy' (18:81). This was in reply to Moses' saying: Have you killed an innocent soul.'? (18.74). 'Near to mercy" means they will be more merciful to him than they were to the former whom Khadir had killed. Other than Sa`id, said that they were compensated with a girl. Dawud bin Abi `Asim said on the authority of more than one that this next child was a girl.

Your Comments/Thoughts ?

قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں سے مزید احادیث

حدیث نمبر 4836

´ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہیں ابن عیینہ نے خبر دی، ان سے زیاد نے بیان کیا اور انہوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4815

´ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن ابراہیم تیمی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، آپ نے بیان کیا کہ` میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4743

´ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوہاشم نے خبر دی، انہیں ابومجلز نے، انہیں قیس بن عباد نے اور انہیں ابوذر رضی اللہ عنہ نے وہ قسم کھا کر بیان کرتے تھے کہ` یہ آیت «هذان خصمان اختصموا في ربهم‏» یہ دو فریق ہیں، جنہوں نے اپنے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4557

´ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ان سے سفیان نے، ان سے میسرہ نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے` آیت «كنتم خير أمة أخرجت للناس‏» تم لوگ لوگوں کے لیے سب لوگوں سے بہتر ہو اور کہا ان کو گردنوں میں زنجیریں ڈال کر مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4799

´ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے حسن بصری اور محمد بن سیرین اور خلاس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے باحیاء ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4514

´اور عثمان بن صالح نے زیادہ بیان کیا کہ ان سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہیں فلاں شخص عبداللہ بن ربیعہ اور حیوہ بن شریح نے خبر دی، انہیں بکر بن عمرو معافری نے، ان سے بکیر بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ` ایک شخص (حکیم) ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4578

´ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ورقاء بن عمر یشکری نے، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` ابتداء اسلام میں میت کا سارا مال اولاد کو ملتا تھا، البتہ والدین کو وہ ملتا جو میت ان کے لیے وصیت کر جائے، پھر اللہ تعالیٰ نے جیسا مناسب سمجھا اس میں ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4556

´مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ` کچھ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے قبیلہ کے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4855

´ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے، ان سے اسمٰعیل بن ابی خالد نے، ان سے عامر نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ` میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اے ایمان والوں کی ماں! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4893

´ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ` میں نے زبیر سے سنا، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ولا يعصينك في معروف‏» یعنی اور ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4847

´ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حجاج نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ` قبیلہ بنی تمیم کے سواروں کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4899

´مجھ سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی الجعد نے اور ابوسفیان نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے بیان کیا کہ` جمعہ کے دن سامان تجارت لیے ہوئے اونٹ آئے ہم اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4555

´ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` پھر ابوطلحہ نے وہ باغ حسان اور ابی رضی اللہ عنہما کو دے دیا تھا۔ میں ان دونوں سے ان کا زیادہ قریبی تھا لیکن مجھے نہیں دیا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4534

´ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے حارث بن شبل نے، ان سے ابوعمرو شیبانی نے اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` پہلے ہم نماز پڑھتے ہوئے بات بھی کر لیا کرتے تھے، کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے اپنی کسی ضرورت کے لیے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4554

´ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ` مدینہ میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے درخت تھے اور بیرحاء کا باغ اپنی تمام جائیداد ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4595

´ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا ہم کو عبدالکریم جرزی نے خبر دی، انہیں عبداللہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4830

´ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معاویہ بن ابی مزرد نے بیان کیا، ان سے سعید بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب وہ اس کی پیدائش ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4925

´ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) اور مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، کہا مجھ کو ابوسلمہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4532

´ہم سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے، کہا ہم کو عبداللہ بن عون نے خبر دی، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ` میں انصار کی ایک مجلس میں حاضر ہوا۔ بڑے بڑے انصاری وہاں موجود تھے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی موجود تھے۔ میں نے وہاں سبیعہ بنت حارث کے باب سے متعلق ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4635

´ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمارہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہو گی، ..مکمل حدیث پڑھیئے