Hadith no 4750 Of Sahih Bukhari Chapter Quran Pak Ki Tafseer Ke Bayan May (Commentary.)

Read Sahih Bukhari Hadith No 4750 - Hadith No 4750 is from Commentary , Quran Pak Ki Tafseer Ke Bayan May Chapter in the Sahih Bukhari Hadees Book, which is written by Imam Bukhari. Hadith # 4750 of Imam Bukhari covers the topic of Commentary briefly in Sahih Bukhari. You can read Hadith No 4750 from Commentary in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.

صحیح بخاری - حدیث نمبر 4750

Hadith No 4750
Book Name Sahih Bukhari
Book Writer Imam Bukhari
Writer Death 256 ھ
Chapter Name Commentary.
Roman Name Quran Pak Ki Tafseer Ke Bayan May
Arabic Name التفسير
Urdu Name قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں

Urdu Translation

´ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے کا واقعہ بیان کیا۔ یعنی جس میں تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بری قرار دیا تھا۔ ان تمام راویوں نے پوری حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا اور ان راویوں میں سے بعض کا بیان بعض دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بعض راوی کو بعض دوسرے کے مقابلہ میں حدیث زیادہ بہتر طریقہ پر محفوظ، یاد تھی۔ مجھ سے یہ حدیث عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ ڈالتے جن کا نام نکل جاتا انہیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر اسی طرح آپ نے قرعہ ڈالا اور میرا نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ مجھے ہودج سمیت اونٹ پر چڑھا دیا جاتا اور اسی طرح اتار لیا جاتا تھا۔ یوں ہمارا سفر جاری رہا۔ پھر جب آپ اس غزوہ سے فارغ ہو کر واپس لوٹے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات جب کوچ کا حکم ہوا۔ میں (قضائے حاجت کے لیے) پڑاؤ سے کچھ دور گئی اور قضائے حاجت کے بعد اپنے کجاوے کے پاس واپس آ گئی۔ اس وقت مجھے خیال ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا بنا ہوا ہار کہیں راستہ میں گر گیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اس میں اتنا محو ہو گئی کہ کوچ کا خیال ہی نہ رہا۔ اتنے میں جو لوگ میرے ہودج کو سوار کیا کرتے تھے آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا جو میری سواری کے لیے تھا۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ میں اس میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں گوشت سے ان کا جسم بھاری نہیں ہوتا تھا کیونکہ کھانے پینے کو بہت کم ملتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب لوگوں نے ہودج کو اٹھایا تو اس کے ہلکے پن میں انہیں کوئی اجنبیت نہیں محسوس ہوئی۔ میں یوں بھی اس وقت کم عمر لڑکی تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس اونٹ کو اٹھایا اور چل پڑے۔ مجھے ہار اس وقت ملا جب لشکر گزر چکا تھا۔ میں جب پڑاؤ پر پہنچی تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا۔ میں وہاں جا کر بیٹھ گئی جہاں پہلے بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی انہیں میرے نہ ہونے کا علم ہو جائے گا اور پھر وہ مجھے تلاش کرنے کے لیے یہاں آئیں گے۔ میں اپنی اسی جگہ پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی ثم ذکوانی لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے (تاکہ اگر لشکر والوں سے کوئی چیز چھوٹ جائے تو اسے اٹھا لیں سفر میں یہ دستور تھا) رات کا آخری حصہ تھا، جب میرے مقام پر پہنچے تو صبح ہو چکی تھی۔ انہوں نے (دور سے) ایک انسانی سایہ دیکھا کہ پڑا ہوا ہے وہ میرے قریب آئے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے۔ پردہ کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب وہ مجھے پہچان گئے تو «إنا لله» پڑھنے لگے۔ میں ان کی آواز پر جاگ گئی اور چہرہ چادر سے چھپا لیا۔ اللہ کی قسم! اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ میں نے «إنا لله وإنا إليه راجعون» کے سوا ان کی زبان سے کوئی کلمہ سنا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا اونٹ بٹھا دیا اور میں اس پر سوار ہو گئی وہ (خود پیدل) اونٹ کو آگے سے کھینچتے ہوئے لے چلے۔ ہم لشکر سے اس وقت ملے جب وہ بھری دوپہر میں (دھوپ سے بچنے کے لیے) پڑاؤ کئے ہوئے تھے، اس تہمت میں پیش پیش عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق تھا۔ مدینہ پہنچ کر میں بیمار پڑ گئی اور ایک مہینہ تک بیمار رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا برابر چرچا رہا لیکن مجھے ان باتوں کا کوئی احساس بھی نہ تھا۔ صرف ایک معاملہ سے مجھے شبہ سا ہوتا تھا کہ میں اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لطف و محبت کا اظہار نہیں دیکھتی تھی جو پہلی بیماریوں کے دنوں میں دیکھ چکی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لاتے سلام کر کے صرف اتنا پوچھ لیتے کہ کیا حال ہے؟ اور پھر واپس چلے جاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طرز عمل سے شبہ ہوتا تھا لیکن صورت حال کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔ ایک دن جب (بیماری سے کچھ افاقہ تھا) کمزوری باقی تھی تو میں باہر نکلی میرے ساتھ ام مسطح رضی اللہ عنہا بھی تھیں ہم مناصع کی طرف گئے۔ قضائے حاجت کے لیے ہم وہیں جایا کرتے تھے اور قضائے حاجت کے لیے ہم صرف رات ہی کو جایا کرتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ہمارے گھروں کے قریب بتی الخلاء نہیں بنے تھے۔ اس وقت تک ہم قدیم عرب کے دستور کے مطابق قضائے حاجت آبادی سے دور جا کر کیا کرتے تھے۔ اس سے ہمیں بدبو سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاء ہمارے گھر کے قریب بنا دیئے جائیں۔ خیر میں اور ام مسطح قضائے حاجت کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ ابورہم بن عبد مناف کی بیٹی تھیں اور ان کی والدہ (رانطہٰ نامی) صخر بن عامر کی بیٹی تھیں۔ اس طرح وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ ہوتی ہیں۔ ان کے لڑکے مسطح بن اثاثہ ہیں۔ قضائے حاجت کے بعد جب ہم گھر واپس آنے لگے تو مسطح کی ماں کا پاؤں انہیں کی چادر میں الجھ کر پھسل گیا۔ اس پر ان کی زبان سے نکلا مسطح برباد ہو، میں نے کہا تم نے بری بات کہی، تم ایک ایسے شخص کو برا کہتی ہو جو غزوہ بدر میں شریک رہا ہے۔ انہوں نے کہا، واہ اس کی باتیں تو نے نہیں سنی؟ میں نے پوچھا: انہوں نے کیا کہا ہے؟ پھر انہوں نے مجھے تہمت لگانے والوں کی باتیں بتائیں میں پہلے سے بیمار تھی ہی، ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا پھر جب میں گھر پہنچی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے تو آپ نے سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اپنے ماں باپ کے گھر جانے کی اجازت دیں گے؟ میرا مقصد ماں باپ کے یہاں جانے سے صرف یہ تھا کہ اس خبر کی حقیقت ان سے پوری طرح معلوم ہو جائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور میں اپنے والدین کے گھر آ گئی۔ میں نے والدہ سے پوچھا کہ یہ لوگ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا بیٹی صبر کرو، کم ہی کوئی ایسی حسین و جمیل عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہو گی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر بھی وہ اس طرح اسے نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے کہا: سبحان اللہ! کیا اس طرح کا چرچا لوگوں نے بھی کر دیا؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس کے بعد میں رونے لگی اور رات بھر روتی رہی۔ صبح ہو گئی لیکن میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند کا نام و نشان تھا۔ صبح ہو گئی اور میں روئے جا رہی تھی اسی عرصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ آپ ان سے میرے چھوڑ دینے کے لیے مشورہ لینا چاہتے تھے۔ کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو گئی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی کے مطابق مشورہ دیا جس کا انہیں علم تھا کہ آپ کی اہلیہ (یعنی خود عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) اس تہمت سے بَری ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے کتنا تعلق خاطر ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کی بیوی کے بارے میں خیر و بھلائی کے سوا اور ہمیں کسی چیز کا علم نہیں اور علی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی ہے، عورتیں ان کے سوا اور بھی بہت ہیں، ان کی باندی (بریرہ) سے بھی آپ اس معاملہ میں دریافت فرما لیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا اور دریافت فرمایا: بریرہ! کیا تم نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تجھ کو شبہ گزرا ہو؟ انہوں نے عرض کیا، نہیں حضور! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جس پر میں عیب لگا سکوں، ایک بات ضرور ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھنے میں بھی سو جاتی ہیں اور اتنے میں کوئی بکری یا پرندہ وغیرہ وہاں پہنچ جاتا ہے اور ان کا گوندھا ہوا آٹا کھا جاتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اس دن آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے مسلمانو! ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے گھر پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم کہ میں اپنی بیوی کو نیک پاک دامن ہونے کے سوا کچھ نہیں جانتا اور یہ لوگ جس مرد کا نام لے رہے ہیں ان کے بارے میں بھی خیر کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر میں گئے تو میرے ساتھ ہی گئے ہیں۔ اس پر سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی مدد کروں گا اور اگر وہ شخص قبیلہ اوس سے تعلق رکھتا ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائیوں یعنی خزرج میں کا کوئی آدمی ہے تو آپ ہمیں حکم دیں، تعمیل میں کوتاہی نہیں ہو گی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے، اس سے پہلے وہ مرد صالح تھے لیکن آج ان پر قومی حمیت غالب آ گئی تھی (عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق) ان ہی کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے اٹھ کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے جھوٹ کہا ہے تم اسے قتل نہیں کر سکتے، تم میں اس کے قتل کی طاقت نہیں ہے۔ پھر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے وہ سعد بن معاذ کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے سعد بن عبادہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم جھوٹ بولتے ہو، ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیا تم منافق ہو گئے ہو کہ منافقوں کی طرفداری میں لڑتے ہو؟ اتنے میں دونوں قبیلے اوس و خزرج اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت آپس ہی میں لڑنے تک پہنچ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر کھڑے تھے۔ آپ لوگوں کو خاموش کرنے لگے۔ آخر سب لوگ چپ ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس دن بھی میں برابر روتی رہی نہ آنسو تھمتا تھا اور نہ نیند آتی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب (دوسری) صبح ہوئی تو میرے والدین میرے پاس ہی موجود تھے، دو راتیں اور ایک دن مجھے مسلسل روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس عرصہ میں نہ مجھے نیند آتی تھی اور نہ آنسو تھمتے تھے۔ والدین سوچنے لگے کہ کہیں روتے روتے میرا دل نہ پھٹ جائے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابھی وہ اسی طرح میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی اس وقت سے اب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے، آپ نے ایک مہینہ تک اس معاملہ میں انتظار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلہ میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا پھر فرمایا، امابعد! اے عائشہ! تمہارے بارے میں مجھے اس اس طرح کی خبریں پہنچی ہیں پس اگر تم بَری ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری برات خود کر دے گا۔ لیکن اگر تم سے غلطی سے گناہ ہو گیا ہے تو اللہ سے دعائے مغفرت کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر لیتا ہے اور پھر اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو ختم کر چکے تو یکبارگی میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے جیسے ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا ہو۔ میں نے اپنے والد (ابوبکر) سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجئیے۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کیا کہنا ہے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا میری طرف سے آپ جواب دیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ میں آپ سے کیا عرض کروں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں خود ہی بولی میں اس وقت نوعمر لڑکی تھی، میں نے بہت زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا (میں نے کہا کہ) اللہ کی قسم! میں تو یہ جانتی ہوں کہ ان افواہوں کے متعلق جو کچھ آپ لوگوں نے سنا ہے وہ آپ لوگوں کے دل میں جم گیا ہے اور آپ لوگ اسے صحیح سمجھنے لگے ہیں، اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں ان تہمتوں سے بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں واقعی بَری ہوں، تو آپ لوگ میری بات کا یقین نہیں کریں گے، لیکن اگر میں تہمت کا اقرار کر لوں، حالانکہ اللہ کے علم میں ہے کہ میں اس سے قطعاً بَری ہوں، تو آپ لوگ میری تصدیق کرنے لگیں گے۔ اللہ کی قسم! میرے پاس آپ لوگوں کے لیے کوئی مثال نہیں ہے سوا یوسف کے والد کے اس ارشاد کے کہ انہوں نے فرمایا تھا «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون‏» پس صبر ہی اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا بیان کیا کہ پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ کہا کہ مجھے پورا یقین تھا کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ میری برات ضرور کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی تلاوت کی جائے گی۔ میں اپنی حیثیت اس سے بہت کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں (قرآن مجید کی آیت) نازل فرمائے۔ البتہ مجھے اس کی توقع ضرور تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے متعلق کوئی خواب دیکھیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ میری برات کر دے گا۔ بیان کیا کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی اپنی اسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے گھر والوں میں سے کوئی باہر نہ تھا کہ آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا اور وہی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہوئی تھی جو وحی کے نازل ہوتے ہوئے طاری ہوتی تھی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسینے پسینے ہو گئے اور پسینہ موتیوں کی طرف آپ کے جسم اطہر سے ڈھلنے لگا حالانکہ سردی کے دن تھے۔ یہ کیفیت آپ پر اس وحی کی شدت کی وجہ سے طاری ہوتی تھی جو آپ پر نازل ہوتی تھی۔ بیان کیا کہ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرما رہے تھے اور سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا، یہ تھا کہ عائشہ! اللہ نے تمہیں بَری قرار دیا ہے۔ میری والدہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (آپ کا شکر ادا کرنے کے لیے) کھڑی ہو جاؤ۔ بیان کیا کہ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں ہرگز آپ کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی اور اللہ پاک کے سوا اور کسی کی تعریف نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے جو آیت نازل کی تھی وہ یہ تھی «إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم لا تحسبوه‏» کہ بیشک جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سے گروہ ہے مکمل دس آیتوں تک۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں میری برات میں نازل کر دیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے اخراجات ان سے قرابت اور ان کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھایا کرتے تھے انہوں نے ان کے متعلق کہا کہ اللہ کی قسم! اب مسطح پر کبھی کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا۔ اس نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) پر کیسی کیسی تہمتیں لگا دی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ولا يأتل أولو الفضل منكم والسعة أن يؤتوا أولي القربى والمساكين والمهاجرين في سبيل الله وليعفوا وليصفحوا ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم‏» اور جو لوگ تم میں بزرگی اور وسعت والے ہیں، وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کی مدد دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں بلکہ چاہئے کہ ان کی لغزشوں کو معاف کرتے رہیں اور درگزر کرتے رہیں، کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بیشک اللہ بڑا مغفرت والا، بڑا ہی رحمت والا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے، ہاں اللہ کی قسم! میری تو یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرما دے چنانچہ مسطح رضی اللہ عنہ کو وہ تمام اخراجات دینے لگے جو پہلے دیا کرتے تھے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! اب کبھی ان کا خرچ بند نہیں کروں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین زینب بن جحش رضی اللہ عنہا سے بھی میرے معاملہ میں پوچھا تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ زینب! تم نے بھی کوئی چیز کبھی دیکھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے کان اور میری آنکھ کو اللہ سلامت رکھے، میں نے ان کے اندر خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ازواج مطہرات میں وہی ایک تھیں جو مجھ سے بھی اوپر رہنا چاہتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انہیں تہمت لگانے سے محفوظ رکھا۔ لیکن ان کی بہن حمنہ ان کے لیے لڑی اور تہمت لگانے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہو گئی۔

Hadith in Arabic

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ ، قَالَ لَهَا : " أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ، وَكُلٌّ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنَ الْحَدِيثِ وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا ، وَإِنْ كَانَ بَعْضُهُمْ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضٍ الَّذِي حَدَّثَنِي عُرْوَةُ ،عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَقْرَعَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا ، فَخَرَجَ سَهْمِي ، فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَمَا نَزَلَ الْحِجَابُ ، فَأَنَا أُحْمَلُ فِي هَوْدَجِي ، وَأُنْزَلُ فِيهِ ، فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَتِهِ تِلْكَ ، وَقَفَلَ وَدَنَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ قَافِلِينَ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ ، فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ ، فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ ، فَلَمَّا قَضَيْتُ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى رَحْلِي ، فَإِذَا عِقْدٌ لِي مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدِ انْقَطَعَ ، فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي ، وَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ ، وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يَرْحَلُونَ لِي ، فَاحْتَمَلُوا هَوْدَجِي ، فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِي الَّذِي كُنْتُ رَكِبْتُ وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ ، وَكَانَ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يُثْقِلْهُنَّ اللَّحْمُ إِنَّمَا تَأْكُلُ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ ، فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ خِفَّةَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَفَعُوهُ ، وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ ، فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا ، فَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَمَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ ، فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ وَلَيْسَ بِهَا دَاعٍ ، وَلَا مُجِيبٌ ، فَأَمَمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ بِهِ ، وَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ سَيَفْقِدُونِي ، فَيَرْجِعُونَ إِلَيَّ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي ، فَنِمْتُ وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ، ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ ، فَأَدْلَجَ ، فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي ، فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ ، فَأَتَانِي ، فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي وَكَانَ يَرَانِي قَبْلَ الْحِجَابِ ، فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي ، فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي ، وَوَاللَّهِ مَا كَلَّمَنِي كَلِمَةً ، وَلَا سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ ، فَوَطِئَ عَلَى يَدَيْهَا ، فَرَكِبْتُهَا ، فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِي الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ بَعْدَمَا نَزَلُوا مُوغِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ ، فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ ، وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى الْإِفْكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنَ سَلُولَ ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ ، فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْتُ شَهْرًا وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِي قَوْلِ أَصْحَابِ الْإِفْكِ لَا أَشْعُرُ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ يَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لَا أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّطَفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِي ، إِنَّمَا يَدْخُلُ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُسَلِّمُ ، ثُمَّ يَقُولُ : " كَيْفَ تِيكُمْ ؟ " ثُمَّ يَنْصَرِفُ ، فَذَاكَ الَّذِي يَرِيبُنِي وَلَا أَشْعُرُ بِالشَّرِّ حَتَّى خَرَجْتُ بَعْدَمَا نَقَهْتُ ، فَخَرَجَتْ مَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ وَهُوَ مُتَبَرَّزُنَا ، وَكُنَّا لَا نَخْرُجُ إِلَّا لَيْلًا إِلَى لَيْلٍ ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا ، وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِي التَّبَرُّزِ قِبَلَ الْغَائِطِ ، فَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ وَهِيَ ابْنَةُ أَبِي رُهْمِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَأُمُّهَا بِنْتُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ ، فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ بَيْتِي ، وَقَدْ فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا ، فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا ، فَقَالَتْ : تَعِسَ مِسْطَحٌ ، فَقُلْتُ لَهَا : بِئْسَ مَا قُلْتِ أَتَسُبِّينَ رَجُلًا شَهِدَ بَدْرًا ، قَالَتْ : أَيْ هَنْتَاهْ أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ ؟ قَالَتْ : قُلْتُ : وَمَا قَالَ ، فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ ، فَازْدَدْتُ مَرَضًا عَلَى مَرَضِي ، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي وَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي سَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ : " كَيْفَ تِيكُمْ ؟ " فَقُلْتُ : أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَيَّ ؟ قَالَتْ : وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَسْتَيْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا ، قَالَتْ : فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجِئْتُ أَبَوَيَّ ، فَقُلْتُ لِأُمِّي : يَا أُمَّتَاهْ ، مَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ ؟ قَالَتْ : يَا بُنَيَّةُ ، هَوِّنِي عَلَيْكِ ، فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا كَثَّرْنَ عَلَيْهَا ، قَالَتْ : فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ ، أَوَلَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا ، قَالَتْ : فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ حَتَّى أَصْبَحْتُ أَبْكِي ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْتَأْمِرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ ، قَالَتْ : فَأَمَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ ، وَبِالَّذِي يَعْلَمُ لَهُمْ فِي نَفْسِهِ مِنَ الْوُدِّ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَهْلَكَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا ، وَأَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لَمْ يُضَيِّقْ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ ، وَإِنْ تَسْأَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ ، قَالَتْ : فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِيرَةَ ، فَقَالَ : " أَيْ بَرِيرَةُ هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْءٍ يَرِيبُكِ ؟ " قَالَتْ بَرِيرَةُ : لَا ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا ، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ ، فَتَأْكُلُهُ ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَعْذَرَ يَوْمَئِذٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ ابْنِ سَلُولَ ، قَالَتْ : فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ : " يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ ، مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا ، وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا مَعِي " ، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ الْأَنْصَارِيُّ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَنَا أَعْذِرُكَ مِنْهُ إِنْ كَانَ مِنْ الْأَوْسِ ضَرَبْتُ عُنُقَهُ ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ ، قَالَتْ : فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ وَكَانَ قَبْلَ ذَلِكَ رَجُلًا صَالِحًا وَلَكِنْ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ ، فَقَالَ لِسَعْدٍ : كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ ، فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ : كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ ، فَتَثَاوَرَ الْحَيَّانِ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ ، قَالَتْ : فَبَكَيْتُ يَوْمِي ذَلِكَ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ ، وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ ، قَالَتْ : فَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي ، وَقَدْ بَكَيْتُ لَيْلَتَيْنِ وَيَوْمًا لَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ ، وَلَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ يَظُنَّانِ أَنَّ الْبُكَاءَ ، فَالِقٌ كَبِدِي ، قَالَتْ : فَبَيْنَمَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي ، فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ ، فَأَذِنْتُ لَهَا ، فَجَلَسَتْ تَبْكِي مَعِي ، قَالَتْ : فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَلَّمَ ، ثُمَّ جَلَسَ ، قَالَتْ : وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ مَا قِيلَ قَبْلَهَا ، وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا لَا يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي ، قَالَتْ : فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَلَسَ ، ثُمَّ قَالَ : " أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ ، فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا ، فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِهِ ثُمَّ تَابَ إِلَى اللَّهِ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ " ، قَالَتْ : فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً ، فَقُلْتُ لِأَبِي : أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا ، قَالَ : قَالَ : وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقُلْتُ لِأُمِّي : أَجِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ : فَقُلْتُ : وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لَا أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنَ الْقُرْآنِ إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ ، لَقَدْ سَمِعْتُمْ هَذَا الْحَدِيثَ حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي أَنْفُسِكُمْ ، وَصَدَّقْتُمْ بِهِ ، فَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَا تُصَدِّقُونِي بِذَلِكَ وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي مِنْهُ بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُنِّي ، وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لَكُمْ مَثَلًا إِلَّا ، قَوْلَ أَبِي يُوسُفَ ، قَالَ : فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18 ، قَالَتْ : ثُمَّ تَحَوَّلْتُ ، فَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي ، قَالَتْ : وَأَنَا حِينَئِذٍ أَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ ، وَأَنَّ اللَّهَ مُبَرِّئِي بِبَرَاءَتِي ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ مُنْزِلٌ فِي شَأْنِي وَحْيًا يُتْلَى وَلَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى ، وَلَكِنْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا ، قَالَتْ : فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا خَرَجَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ حَتَّى أُنْزِلَ عَلَيْهِ ، فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ ، وَهُوَ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِي يُنْزَلُ عَلَيْهِ ، قَالَتْ : فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُرِّيَ عَنْهُ ، وَهُوَ يَضْحَكُ ، فَكَانَتْ أَوَّلُ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا : " يَا عَائِشَةُ ، أَمَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ بَرَّأَكِ " ، فَقَالَتْ أُمِّي : قُومِي إِلَيْهِ ، قَالَتْ : فَقُلْتُ : لَا ، وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ ، وَلَا ، أَحْمَدُ إِلَّا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لا تَحْسَبُوهُ سورة النور آية 11 الْعَشْرَ الْآيَاتِ كُلَّهَا ، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ هَذَا فِي بَرَاءَتِي ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَفَقْرِهِ ، وَاللَّهِ لَا أُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي ، قَالَ لِعَائِشَةَ : مَا قَالَ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22 ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : بَلَى ، وَاللَّهِ إِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي ، فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ ، وَقَالَ : وَاللَّهِ لَا أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا ، قَالَتْ عَائِشَةُ : وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُ زَيْنَبَ ابْنَةَ جَحْشٍ عَنْ أَمْرِي ؟ فَقَالَ : " يَا زَيْنَبُ ، مَاذَا عَلِمْتِ أَوْ رَأَيْتِ ؟ " فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَحْمِي سَمْعِي ، وَبَصَرِي ، مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَيْرًا ، قَالَتْ : وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ ، وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ تُحَارِبُ لَهَا ، فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ مِنْ أَصْحَابِ الْإِفْكِ " .

English Translation

Narrated Aisha: (The wife of the Prophet) Whenever Allah's Messenger intended to go on a journey, he used to draw lots among his wives and would take with him the one on whom the lot had fallen. Once he drew lots when he wanted to carry out a Ghazwa, and the lot came upon me. So I proceeded with Allah's Apostle after Allah's order of veiling (the women) had been revealed and thus I was carried in my howdah (on a camel) and dismounted while still in it. We carried on our journey, and when Allah's Apostle had finished his Ghazwa and returned and we approached Medina, Allah's Messenger ordered to proceed at night. When the army was ordered to resume the homeward journey, I got up and walked on till I left the army (camp) behind. When I had answered the call of nature, I went towards my howdah, but behold ! A necklace of mine made of Jaz Azfar (a kind of black bead) was broken and I looked for it and my search for it detained me. The group of people who used to carry me, came and carried my howdah on to the back of my camel on which I was riding, considering that I was therein. At that time women were light in weight and were not fleshy for they used to eat little (food), so those people did not feel the lightness of the howdah while raising it up, and I was still a young lady. They drove away the camel and proceeded. Then I found my necklace after the army had gone. I came to their camp but found nobody therein so I went to the place where I used to stay, thinking that they would miss me and come back in my search. While I was sitting at my place, I felt sleepy and slept. Safwan bin Al-Mu'attil As-Sulami Adh- Dhakw-ani was behind the army. He had started in the last part of the night and reached my stationing place in the morning and saw the figure of a sleeping person. He came to me and recognized me on seeing me for he used to see me before veiling. I got up because of his saying: "Inna Li l-lahi wa inna ilaihi rajiun," which he uttered on recognizing me. I covered my face with my garment, and by Allah, he did not say to me a single word except, "Inna Li l-lahi wa inna ilaihi rajiun," till he made his shecamel kneel down whereupon he trod on its forelegs and I mounted it. Then Safwan set out, leading the she-camel that was carrying me, till we met the army while they were resting during the hot midday. Then whoever was meant for destruction, fell in destruction, and the leader of the Ifk (forged statement) was `Abdullah bin Ubai bin Salul. After this we arrived at Medina and I became ill for one month while the people were spreading the forged statements of the people of the Ifk, and I was not aware of anything thereof. But what aroused my doubt while I was sick, was that I was no longer receiving from Allah's Messenger the same kindness as I used to receive when I fell sick. Allah's Messenger would enter upon me, say a greeting and add, "How is that (lady)?" and then depart. That aroused my suspicion but I was not aware of the propagated evil till I recovered from my ailment. I went out with Um Mistah to answer the call of nature towards Al-Manasi, the place where we used to relieve ourselves, and used not to go out for this purpose except from night to night, and that was before we had lavatories close to our houses. And this habit of ours was similar to the habit of the old 'Arabs (in the deserts or in the tents) concerning the evacuation of the bowels, for we considered it troublesome and harmful to take lavatories in the houses. So I went out with Um Mistah who was the daughter of Abi Ruhm bin `Abd Manaf, and her mother was daughter of Sakhr bin Amir who was the aunt of Abi Bakr As-Siddiq, and her son was Mistah bin Uthatha. When we had finished our affair, Um Mistah and I came back towards my house. Um Mistah stumbled over her robe whereupon she said, "Let Mistah be ruined ! " I said to her, "What a bad word you have said! Do you abuse a man who has taken part in the Battle of Badr?' She said, "O you there! Didn't you hear what he has said?" I said, "And what did he say?" She then told me the statement of the people of the Ifk (forged statement) which added to my ailment. When I returned home, Allah's Messenger came to me, and after greeting, he said, "How is that (lady)?" I said, "Will you allow me to go to my parents?" At that time I intended to be sure of the news through them. Allah's Messenger allowed me and I went to my parents and asked my mother, "O my mother! What are the people talking about?" My mother said, "O my daughter! Take it easy, for by Allah, there is no charming lady who is loved by her husband who has other wives as well, but that those wives would find fault with her." I said, "Subhan Allah! Did the people really talk about that?" That night I kept on weeping the whole night till the morning. My tears never stopped, nor did I sleep, and morning broke while I was still weeping, Allah's Messenger called `Ali bin Abi Talib and Usama bin Zaid when the Divine Inspiration delayed, in order to consult them as to the idea of divorcing his wife. Usama bin Zaid told Allah's Messenger of what he knew about the innocence of his wife and of his affection he kept for her. He said, "O Allah's Messenger ! She is your wife, and we do not know anything about her except good." But `Ali bin Abi Talib said, "O Allah's Messenger ! Allah does not impose restrictions on you; and there are plenty of women other than her. If you however, ask (her) slave girl, she will tell you the truth." `Aisha added: So Allah's Messenger called for Barira and said, "O Barira! Did you ever see anything which might have aroused your suspicion? (as regards Aisha). Barira said, "By Allah Who has sent you with the truth, I have never seen anything regarding Aisha which I would blame her for except that she is a girl of immature age who sometimes sleeps and leaves the dough of her family unprotected so that the domestic goats come and eat it." So Allah's Messenger got up (and addressed) the people an asked for somebody who would take revenge on `Abdullah bin Ubai bin Salul then. Allah's Messenger , while on the pulpit, said, "O Muslims! Who will help me against a man who has hurt me by slandering my family? By Allah, I know nothing except good about my family, and people have blamed a man of whom I know nothing except good, and he never used to visit my family except with me," Sa`d bin Mu`adh Al-Ansari got up and said, "O Allah's Messenger ! By Allah, I will relieve you from him. If he be from the tribe of (Bani) Al-Aus, then I will chop his head off; and if he be from our brethren, the Khazraj, then you give us your order and we will obey it." On that, Sa`d bin 'Ubada got up, and he was the chief of the Khazraj, and before this incident he had been a pious man but he was incited by his zeal for his tribe. He said to Sa`d (bin Mu`adh), "By Allah the Eternal, you have told a lie! You shall not kill him and you will never be able to kill him!" On that, Usaid bin Hudair, the cousin of Sa`d (bin Mu`adh) got up and said to Sa`d bin 'Ubada, "You are a liar! By Allah the Eternal, we will surely kill him; and you are a hypocrite defending the hypocrites!" So the two tribes of Al-Aus and Al-Khazraj got excited till they were on the point of fighting with each other while Allah's Messenger was standing on the pulpit. Allah's Messenger continued quietening them till they became silent whereupon he became silent too. On that day I kept on weeping so much that neither did my tears stop, nor could I sleep. In the morning my parents were with me, and I had wept for two nights and a day without sleeping and with incessant tears till they thought that my liver would burst with weeping. While they were with me and I was weeping, an Ansari woman asked permission to see me. I admitted her and she sat and started weeping with me. While I was in that state, Allah's Apostle came to us, greeted, and sat down,. He had never sat with me since the day what was said, was said. He had stayed a month without receiving any Divine Inspiration concerning my case. Allah's Messenger recited the Tashahhud after he had sat down, and then said, "Thereafter, O `Aisha! I have been informed such and-such a thing about you; and if you are innocent, Allah will reveal your innocence, and if you have committed a sin, then ask for Allah's forgiveness and repent to Him, for when a slave confesses his sin and then repents to Allah, Allah accepts his repentance." When Allah's Apostle had finished his speech, my tears ceased completely so that I no longer felt even a drop thereof. Then I said to my father, "Reply to Allah's Messenger on my behalf as to what he said." He said, "By Allah, I do not know what to say to Allah's Messenger ." Then I said to my mother, "Reply to Allah's Apostle." She said, "I do not know what to say to Allah's Messenger ." Still a young girl as I was and though I had little knowledge of Qur'an, I said, "By Allah, I know that you heard this story (of the Ifk) so much so that it has been planted in your minds and you have believed it. So now, if I tell you that I am innocent, and Allah knows that I am innocent, you will not believe me; and if I confess something, and Allah knows that I am innocent of it, you will believe me. By Allah, I cannot find of you an example except that of Joseph's father: "So (for me) patience is most fitting against that which you assert and it is Allah (Alone) Whose help can be sought. Then I turned away and lay on my bed, and at that time I knew that I was innocent and that Allah would reveal my innocence. But by Allah, I never thought that Allah would sent down about my affair, Divine Inspiration that would be recited (forever), as I considered myself too unworthy to be talked of by Allah with something that was to be recited: but I hoped that Allah's Messenger might have a vision in which Allah would prove my innocence. By Allah, Allah's Messenger had not left his seat and nobody had left the house when the Divine Inspiration came to Allah's Messenger . So there overtook him the same hard condition which used to overtake him (when he was Divinely Inspired) so that the drops of his sweat were running down, like pearls, though it was a (cold) winter day, and that was because of the heaviness of the Statement which was revealed to him. When that state of Allah's Messenger was over, and he was smiling when he was relieved, the first word he said was, "Aisha, Allah has declared your innocence." My mother said to me, "Get up and go to him." I said, "By Allah, I will not go to him and I will not thank anybody but Allah." So Allah revealed: "Verily! They who spread the Slander are a gang among you. Think it not...." (24.11-20). When Allah revealed this to confirm my innocence, Abu Bakr As-Siddiq who used to provide for Mistah bin Uthatha because of the latter's kinship to him and his poverty, said, "By Allah, I will never provide for Mistah anything after what he has said about Aisha". So Allah revealed: (continued...) (continuing... 1): -6.274:... ... "Let not those among you who are good and are wealthy swear not to give (help) to their kinsmen, those in need, and those who have left their homes for Allah's Cause. Let them Pardon and forgive (i.e. do not punish them). Do you not love that should forgive you? Verily Allah is Oft-forgiving. Most Merciful." (24.22) Abu Bakr said, "Yes, by Allah, I wish that Allah should forgive me." So he resumed giving Mistah the aid he used to give him before and said, "By Allah, I will never withold it from him at all." Aisha further said: Allah's Messenger also asked Zainab bint Jahsh about my case. He said, "O Zainab! What have you seen?" She replied, "O Allah's Messenger ! I protect my hearing and my sight (by refraining from telling lies). I know nothing but good (about Aisha)." Of all the wives of Allah's Messenger , it was Zainab who aspired to receive from him the same favor as I used to receive, yet, Allah saved her (from telling lies) because of her piety. But her sister, Hamna, kept on fighting on her behalf so she was destroyed as were those who invented and spread the slander.

Your Comments/Thoughts ?

قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں سے مزید احادیث

حدیث نمبر 4513

´ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ` ان کے پاس ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے فتنے کے زمانہ میں (جب ان پر حجاج ظالم نے حملہ کیا اور مکہ کا محاصرہ کیا) دو آدمی (علاء ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4865

´ہم سے علی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن ابی نجیح نے خبر دی، انہیں مجاہد نے، انہیں ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` چاند پھٹ گیا تھا اور اس وقت ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ چنانچہ اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ نبی کریم ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4816

´ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے روح بن قاسم نے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے` آیت «وما كنتم تستترون أن يشهد،‏‏‏‏ عليكم سمعكم‏» اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا نہیں سکتے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4535

´ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ` جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نماز خوف کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ فرماتے کہ امام مسلمانوں کی ایک جماعت کو لے کر خود آگے بڑھے اور انہیں ایک رکعت نماز پڑھائے۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت ان کے اور ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4812

´ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد بن مسافر نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے ابوسلمہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4581

´مجھ سے محمد بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4862

´ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے اور تمام مشرکوں ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4796

´ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ` پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ابوالقعیس کے بھائی افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی، لیکن میں نے کہلوا دیا کہ جب تک اس سلسلے میں رسول اللہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4506

´ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` انھوں نے یوں قرآت کی «فدية» بغیر تنوین «طَعام مساكين‏» بتلایا کہ یہ آیت منسوخ ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4483

´ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` عمر رضی اللہ عنہ فرمایا، تین مواقع پر اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے حکم سے میری رائے نے پہلے ہی موافقت کی یا میرے رب نے تین مواقع پر میری رائے کے موافق حکم نازل فرمایا۔ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4918

´ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے عبد بن خالد سے بیان کیا، کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ` میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میں تمہیں بہشتی آدمی کے متعلق ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4854

´ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے اصحاب نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا، ان سے محمد بن جبیر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4874

´ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ` میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے «فهل من مذكر» پڑھا تو آپ صلی اللہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4778

´ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد بن عبداللہ بن عمر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی کنجیاں پانچ ہیں۔ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4477

´ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے، ان سے عمرو بن شرحبیل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا اور ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4836

´ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہیں ابن عیینہ نے خبر دی، ان سے زیاد نے بیان کیا اور انہوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4686

´ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے برید بن ابی بردہ نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چند روز دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4604

´ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص یہ کہتا ہے میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ کہا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4509

´ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے، ان سے عامر شعبی نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ` انھوں نے ایک سفید دھاگا اور ایک سیاہ دھاگا لیا (اور سوتے ہوئے اپنے ساتھ رکھ لیا)۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4496

´ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ` اسے ہم جاہلیت کے کاموں میں سے سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو ہم ان کی سعی سے رک گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ..مکمل حدیث پڑھیئے