Hadith no 2950 Of Sahih Muslim Chapter Hajj Ke Ehkaam O Masail (Problems and Commands About Pilgrimage)
Read Sahih Muslim Hadith No 2950 - Hadith No 2950 is from Problems And Commands About Pilgrimage , Hajj Ke Ehkaam O Masail Chapter in the Sahih Muslim Hadees Book, which is written by Imam Muslim. Hadith # 2950 of Imam Muslim covers the topic of Problems And Commands About Pilgrimage briefly in Sahih Muslim. You can read Hadith No 2950 from Problems And Commands About Pilgrimage in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.
صحیح مسلم - حدیث نمبر 2950
Hadith No | 2950 |
---|---|
Book Name | Sahih Muslim |
Book Writer | Imam Muslim |
Writer Death | 261 ھ |
Chapter Name | Problems And Commands About Pilgrimage |
Roman Name | Hajj Ke Ehkaam O Masail |
Arabic Name | الْحَجِّ |
Urdu Name | حج کے احکام و مسائل |
Urdu Translation
جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور انہوں نے سب لوگوں کو پوچھا یہاں تک کہ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ میں محمد بن علی ہوں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا پوتا۔ سو انہوں نے میری طرف (شفقت سے) ہاتھ بڑھایا اور میرے سر پر ہاتھ رکھا اور میرے اوپر کی گھنڈی کھولی پھر نیچے کی گھنڈی کھولی (یعنی شلوکے وغیرہ کی) اور پھر اپنی ہتھیلی رکھی میرے سینے پر دونوں چھاتیوں کے بیچ میں اور میں ان دنوں جوان لڑکا تھا، پھر کہا: شاباش خوش رہو۔ اے میرے بھتیجے اور پوچھو مجھ سے جو چاہو۔ پھر میں نے ان سے پوچھا اور وہ نابینا تھے اور اتنے میں نماز کا وقت آ گیا اور وہ کھڑے ہوئے ایک چادر اوڑھ کر کہ جب اس کے دونوں کناروں کو دونوں کندھوں پر رکھتے تھے تو وہ نیچے گر جاتے تھے اس چادر کے چھوٹے ہونے کے سبب سے اور ان کی چادر بڑی تپائی پر رکھی تھی۔ پھر نماز پڑھائی انہوں نے ہم کو (یعنی امامت کی) اور میں نے کہا کہ خبر دیجئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج سے (یعنی حجۃ الوداع سے) تو جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا ٹوکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو برس تک مدینہ منورہ میں رہے اور حج نہیں کیا، پھر لوگوں میں پکارا گیا دسویں سال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو جانے والے ہیں، پھر جمع ہو گئے مدینہ میں بہت سے لوگ اور سب چاہتے تھے کہ پیروی کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ویسا ہی کام کریں (حج کرنے میں) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کریں غرض ہم لوگ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ ذوالحلیفہ پہنچے اور وہاں اسماء بنت عمیس جنیں اور محمد، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹا پیدا ہوئے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غسل کر لو اور لنگوٹ باندھ لو ایک کپڑے کا اور احرام باندھ لو۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھیں مسجد میں اور سوار ہوئے قصواء اونٹنی پر یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر وہ سیدھی ہوئی بیداء پر (وہ ایک مقام ہے مثل ٹیلہ کے) تو میں نے دیکھا آگے کی طرف جہاں تک کہ میری نظر گئی کہ سوار اور پیادے ہی نظر آتے تھے اور اپنے داہنی طرف بھی ایسی ہی بھیڑ تھی اور بائیں طرف بھی ایسی ہی بھیر تھی اور پیچھے بھی ایسی ہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بیچ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف اترتا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت کو خوب جانتے تھے اور جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہی ہم نے بھی کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے ساتھ لبیک پکاری اور کہا «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ، لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ» اور لوگوں نے بھی یہی لبیک پکاری جو اب لوگ پکارتے ہیں (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لبیک میں کچھ لفظ بڑھا کر پکارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روکا نہیں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لبیک ہی پکارتے رہے اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم حج کے سوا اور کچھ ارادہ نہیں رکھتے تھے اور عمرہ کو پہجانتے ہی نہ تھے (بلکہ ایام حج میں عمرہ بجا لانا ایام جاہلیت سے برا جانتے تھے) یہاں تک کہ جب ہم بیت اللہ میں آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوا رکن کو (یعنی حجر اسود کو) اور طواف میں تین بار اچھل اچھل کر چھوٹے ڈگ رکھ کے شانے اچھال اچھال کر چلے اور چار بار عادت کے موافق چلے پھر مقام ابراہیم پر آئے اور یہ آیت پڑھی «وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى» یعنی (مقرر کرو مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ) اور مقام کو اپنے اور بیت اللہ کے بیچ میں کیا، پھر میرے باپ کہتے تھے اور میں نہیں جانتا کہ انہوں نے ذکر کیا ہو مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ذکر کیا ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھیں دو رکعتیں اور ان میں «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» اور «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» پڑھی۔ پھر لوٹ کر گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس اور اس کو بوسہ دیا اور نکلے اس دروازہ سے جو صفا کی طرف ہے پھر جب صفا کے قریب پہنچے (وہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو کعبہ کے دروازے سے بیس پچیس قدم پر ہے) تو یہ آیت پڑھی «ِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ» یعنی ”صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں“ اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”ہم شروع کرتے ہیں جس سے شروع کیا اللہ تعالیٰ نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھا اور قبلہ کی طرف دیکھا اور اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی اور اس کی بڑائی بیان کی (یعنی «لاالٰه الا الله» اور «الله اكبر» کہا اور کہا «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ») یعنی کوئی معبود لائق عبادت نہیں سوا اللہ تعالیٰ کے، اکیلا ہے وہ، پورا کیا اس نے اپنا وعدہ (یعنی دین کے پھیلانے کا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کا) اور مدد کی اس نے اپنے غلام کی (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) اور شکست دی اس نے اکیلے سب لشکروں کو۔“ پھر اس کے بعد دعا کی، پھر ایسا ہی کہا، پھر دعا کی غرض تین بار ایسا ہی کیا پھر اترے اور مروہ کی طرف چلے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم میدان کے بیچ میں اترے تو دوڑے یہاں تک کہ مروہ پر پہنچے پھر مروہ پر بھی ویسا ہی کیا جیسے کہ صفا پر کیا تھا یعنی وہ کلمات کہے اور دعا کی قبلہ رخ کھڑے ہو کر یہاں تک کہ جب طواف تمام ہوا مردہ پر (یعنی سات شوط ہو چکے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اگر پہلے سے معلوم ہوتا اپنا کام جو بعد معلوم ہوا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا (اور مکہ ہی میں خرید لیتا) اور اپنے اس احرام حج کو عمرہ کر ڈالتا اب تم میں سے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے (یعنی طواف و سعی تو ہو چکی اور عمرہ کے افعال پورے ہو گئے) اور اس کو عمرہ کر لے۔“ پھر سراقہ بن مالک جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ حج کو عمرہ کر ڈالنا ہمارے اسی سال کے لیے خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے اس کی اجازت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیشہ کے لیے اجازت ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔“ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یمن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لے کر آئے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ ان میں ہیں جنہوں نے احرام کھول ڈالا اور رنگین کپڑے پہنے ہوئی ہیں اور سرمہ لگائے ہوئی ہیں تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے برا مانا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے باپ نے حکم فرمایا اس کا۔ پھر راوی نے کہا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ عراق میں فرماتے تھے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا غصہ کرتا ہوا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر اس کے احرام کھولنے کے سبب سے جو انہوں نے کیا تھا پوچھنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی بات کو جو اس نے ذکر کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی میں نے کہ برا جانا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فاطمہ نے سچ کہا سچ کہا۔“ (یعنی میں نے ہی ان کو احرام کھولنے کا حکم دیا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کیا کہا جب حج کا قصد کیا؟“ تو میں نے عرض کی کہ میں نے کہا: یااللہ! میں اہلال کرتا ہوں اس کا جس کا اہلال کیا ہے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے ساتھ ہدی ہے (اس لیے میں نے احرام نہیں کھولا) اب تم بھی احرام نہ کھولو۔“ کہا جابر رضی اللہ عنہ نے کہ پھر وہ اونٹ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ لائے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لائے سب مل کر سو اونٹ ہو گئے، کہا سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہ پھر سب لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور بال کترائے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور جن کے ساتھ قربانی تھی (کہ وہ محرم ہی رہے) پھر جب ترویہ کا دن ہوا (یعنی آٹھویں تاریخ ذی الحجہ کی) تو سب لوگ منیٰ کو چلے اور حج کی لبیک پکاری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے اور منیٰ میں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اور فجر (پانچ نمازیں) پڑھیں۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا اور حکم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیمہ کا جو بالوں کا بنا ہوا تھا کہ لگایا جائے نمرہ میں (کہ نام ہے ایک مقام کا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور قریش یقین کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم المشعر الحرام میں وقوف کریں گے جیسے سب قریش کے لوگوں کی عادت تھی ایام جاہلیت میں اور آپ وہاں سے آگے بڑھ گئے یہاں تک عرفات پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ اپنا نمرہ میں لگایا اور اس میں اترے یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: قصواء اونٹنی کسی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی کے بیچ میں پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا لوگوں پر اور فرمایا: تمہارے خون اور اموال ایک دوسرے پر حرام ہیں جیسے آج کے دن کی حرمت ہے، اس مہینے کے اندر اس شہر کے اندر اور ہر چیز زمانہ جاہلیت کی میرے دونوں پیروں کے نیچے رکھ دی گئی (یعنی ان چیزوں کا اعتبار نہ رہا) اور جاہلیت کے خون بے اعتبار ہو گئے اور پہلا وہ خون جو میں اپنے خونوں میں سے معاف کئے دیتا ہوں۔ ابن ربیعہ کا خون کہ وہ دودھ پیتا تھا بنی سعد میں اور اس کو ہذیل نے قتل کر ڈالا (غرض میں اس کا بدلہ نہیں لیتا) اور اسی طرح زمانہ جاہلیت کا سود سب چھوڑ دیا گیا۔ (یعنی کوئی اس وقت کا چڑھا سود نہ لے) اور پہلے جو سود کہ ہم نے اپنے یہاں کے سود میں سے چھوڑ دیتے (اور طلب نہیں کرتے) عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے اس لیے وہ سب معاف کر دیا گیا اور تم لوگ اب ڈرو اللہ سے کہ عورتوں پر زیادتی نہ کرو اس لیے کہ ان کو تم نے اللہ پاک کی امان سے لیا ہے اور حلال کیا ہے تم نے ان کے ستر کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ سے اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ تمہارے بچھونے پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں (یعنی تمہارے گھر میں) جس کا آنا تم کو ناگوار ہو۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسا مارو کہ ان کو سخت چوٹ نہ لگے (یعنی ہڈی وغیرہ نہ ٹوٹے، کوئی عضو ضائع نہ ہو۔ حسن صورت میں فرق نہ آئے کہ تمہاری کھیتی اجڑ جائے) اور ان کا حق تمہارے اوپر اتنا ہے کہ روٹی ان کی اور کپڑا ان کا دستور کے موافق تمہارے ذمہ ہے اور تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں میں ایسی چیز کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب اور تم سے سوال ہو گا (قیامت میں) اور میرا حال پوچھا جائے گا پھر تم کیا کہو گے؟“ تو ان سب نے عرض کی کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیر خواہی کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اپنی انگشت شہادت (کلمہ کی انگلی) سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے: ”یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو۔“ تین بار یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا پھر اذان اور تکبیر ہوئی اور ظہر کی نماز پڑھی اور پھر اقامت کہی اور عصر پڑھی اور ان دونوں کے بیچ کچھ نہیں پڑھا۔ (یعنی سنت وغیرہ) پھر سوار ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک کہ آئے کھڑے ہونے کی جگہ میں۔ پھر اونٹنی کا پیٹ کر دیا پتھروں کی طرف اور پگڈنڈی کو اپنے آگے کر لیا اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور کھڑے رہے یہاں تک کہ آفتاب ڈوب گیا اور زردی تھوڑی تھوڑی جاتی رہی اور سورج کی ٹکیا ڈوب گئی اور اسامہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور لوٹے اور مہار قصواء کی اس قدر کھینچی ہوئی تھی کہ سر اس کا کجاوہ کے آگے مورک میں لگ گیا تھا (مورک وہ جگہ ہے جہاں سوار بعض وقت تھک کر اپنا پیر جو لٹکا ہوا رہتا ہے اس جگہ رکھتا ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے کہ ”اے لوگو! رساں رساں چلو آرام سے۔“ اور جب کسی ریت کی ڈھیری پر آ جاتے (جہاں بھیڑ کم پاتے) تو ذرا مہار ڈھیلی کر دیتے یہاں تک کہ اونٹنی چڑھ جاتی آخر مزدلفہ پہنچ گئے اور وہاں مغرب اور عشاء پڑھی ایک اذان سے (جو مغرب سے پہلے کہی) اور دو تکبیروں سے اور ان دونوں فرضوں کے بیچ میں نفل کچھ نہیں پڑھے (یعنی سنت وغیرہ نہیں پڑھی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ رہے یہاں تک کہ صبح برآمد ہوئی پھر فجر کی نماز ادا کی (سبحان اللہ! کیسے کیسے خادم ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ رات دن، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے بیٹھنے، اٹھنے جاگنے، کھانے پینے پر نظر ہے اور ہر فعل مبارک کی یاد داشت و حفاظت ہے اللہ تعالیٰ رحمت کرے ان پر) جب فجر خوب ظاہر ہو گئی اذان اور تکبیر کے ساتھ نماز پڑھی، پھر قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ المشعر الحرام میں آئے اور وہاں قبلہ کی طرف منہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ اکبر کہا اور لاالٰہ الااللہ کہا اور اس کی توحید پکاری اور وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ روشنی ہو گئی بخوبی اور لوٹے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے قبل طلوع آفتاب کے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور فضل ایک نوجوان اچھے بالوں والا گورا چٹا خوبصورت جوان تھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو ایک گروہ عورتوں کا ایسا چلا جاتا تھا کہ ایک ایک اونٹ پر ایک عورت سوار تھی اور سب چلی چاتی تھیں اور فضل ان کی طرف دیکھنے لگے سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا (اور زبان سے کچھ نہ فرمایا سبحان اللہ! یہ اخلاق کی بات تھی اور نہی عن المنکر کس خوبی سے ادا کیا) اور فضل نے منہ اپنا دوسری جانب پھیر لیا اور دیکھنے لگے (یہ ان کے کمال اطمینان کی وجہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا ہاتھ ادھر پھیر کر ان کے منہ پر رکھ دیا تو فضل پھر دوسری طرف منہ پھیر کر پھر دیکھنے لگے یہاں تک کہ بطن محسر میں پہنچے تب اونٹنی کو ذرا چلایا اور بیچ کی راہ لی جو جمرہ کبریٰ پر جا نکلی ہے یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے (اور اسی کو جمرہ عقبہ کہتے ہیں) اور سات کنکریاں اس کو ماریں اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے ایسی کنکریں جو چٹکی سے ماری جاتی ہیں (اور دانہ باقلا کے برابر ہوں) اور وادی کے بیچ میں کھڑے ہو کر ماریں (کہ منٰی اور عرفات اور مزدلفہ داہنی طرف اور مکہ بائیں طرف رہا) پھر نحر کی جگہ آئے اور تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئیے (قربان دست و باز دیت شوم) باقی سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دئیے کہ انہوں نے نحر کئیے اور شریک کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی ہدی میں پھر حکم فرمایا کہ ہر اونٹ میں سے ایک ٹکڑا لیں اور ایک ہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا پھر سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف آئے اور طواف افاضہ کیا اور ظہر مکہ میں پڑھی اور بنی عبدالمطلب کے پاس آئے کہ وہ لوگ زمزم پر پانی پلا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی بھرو اے اولاد عبدالمطلب کی اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ بھیڑ کر کے تمہیں پانی نہ بھرنے دیں گے تو میں بھی تمہارا شریک ہو کر پانی بھرتا۔“ (یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھرتے سنت ہو جاتا تو پھر ساری امت بھرنے لگتی) اور ان کی سقایت جاتی رہتی، پھر ان لوگوں نے ایک ڈول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا۔
Hadith in Arabic
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا ، عَنْ حَاتِمٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل الْمَدَنِيُّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فَسَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ ، فَقُلْتُ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي ، فَنَزَعَ زِرِّي الْأَعْلَى ، ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الْأَسْفَلَ ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ ، فَقَالَ مَرْحَبًا بِكَ يَا ابْنَ أَخِي ، سَلْ عَمَّا شِئْتَ ، فَسَأَلْتُهُ وَهُوَ أَعْمَى وَحَضَرَ وَقْتُ الصَّلَاةِ ، فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبِهِ ، رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَنْبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ ، فَصَلَّى بِنَا ، فَقُلْتُ : " أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ بِيَدِهِ : فَعَقَدَ تِسْعًا ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ، ثُمَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ ، كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَعْمَلَ مِثْلَ عَمَلِهِ ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَصْنَعُ ؟ ، قَالَ : " اغْتَسِلِي وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي " ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ ، وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلَ ذَلِكَ وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلَ ذَلِكَ ، وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلَ ذَلِكَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا ، وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ وَمَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ ، فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ : لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ ، لَكَ وَالْمُلْكَ ، لَا شَرِيكَ لَكَ ، وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَيْئًا مِنْهُ ، وَلَزِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ ، قَالَ جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ ، حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ ، اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ، ثُمَّ نَفَذَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام ، فَقَرَأَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ ، فَكَانَ أَبِي يَقُولُ : وَلَا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ سورة الإخلاص آية 1 وَ قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ سورة الكافرون آية 1 ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ ، ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا ، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الصَّفَا قَرَأَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ ، فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَوَحَّدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ ، وَقَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ ، ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ ، قَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ ، حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي سَعَى ، حَتَّى إِذَا صَعِدَتَا مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا ، حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ ، فَقَالَ : لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ ، لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ ، وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً ، فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ : أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ ؟ فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ وَاحِدَةً فِي الْأُخْرَى ، وَقَالَ : دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ مَرَّتَيْنِ ، لَا بَلْ لِأَبَدٍ أَبَدٍ ، وَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَوَجَدَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مِمَّنْ حَلَّ وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا ، فَقَالَتْ : إِنَّ أَبِي أَمَرَنِي بِهَذَا ، قَالَ : فَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ بِالْعِرَاقِ : فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَرِّشًا عَلَى فَاطِمَةَ لِلَّذِي صَنَعَتْ ، مُسْتَفْتِيًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا ذَكَرَتْ عَنْهُ ، فَأَخْبَرْتُهُ أَنِّي أَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا ، فَقَالَ : صَدَقَتْ صَدَقَتْ ، مَاذَا قُلْتَ : حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ ، قَالَ : فَإِنَّ مَعِيَ الْهَدْيَ فَلَا تَحِلُّ ، قَالَ : فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ ، وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةً ، قَالَ : فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ تَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى فَأَهَلُّوا بِالْحَجِّ ، وَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهَا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ ، ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ تُضْرَبُ لَهُ بِنَمِرَةَ ، فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَأَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ ، فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ ، أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ ، فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِي فَخَطَبَ النَّاسَ ، وَقَالَ : إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا ، أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ ، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ ، فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللَّهِ ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ، وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابُ اللَّهِ ، وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّي فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ ؟ ، قَالُوا : نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ ، فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ : اللَّهُمَّ اشْهَدِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ أَذَّنَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ ، فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا ، حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ ، وَدَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ ، حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ ، وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى : أَيُّهَا النَّاسُ السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ ، كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنَ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا حَتَّى تَصْعَدَ ، حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ، ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ ، وَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعْرِ أَبْيَضَ وَسِيمًا فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ ظُعُنٌ يَجْرِينَ ، فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ ، فَحَوَّلَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ ، فَحَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ ، يَصْرِفُ وَجْهَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ ، حَتَّى أَتَى بَطْنَ مُحَسِّرٍ فَحَرَّكَ قَلِيلًا ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تَخْرُجُ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا مِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ ، ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ، ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ ، فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ ، فَأَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ ، فَقَالَ : انْزِعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ ، لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ ، فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ " ،
- Previous Hadith
- Hadith No. 2950 of 7563
- Next Hadith
Your Comments/Thoughts ?
حج کے احکام و مسائل سے مزید احادیث
حدیث نمبر 3284
نافع نے کہا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ جب حج یا عمرہ سے لوٹتے تو بطحائے ذی الحلیفہ میں اونٹ بٹھاتے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بٹھاتے تھے۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2806
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ اور شام اور نجد والوں کی میقات ویسی ہی روایت کی اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگوں نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میقات اہل یمن کی یلملم ہے۔“ مگر میں نے ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3128
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3062
سالم نے اپنے باپ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے چاروں کونوں میں سے رکن اسود اور اس کے پاس والے کونے کو جو بنی جمح کے مکانوں کی طرف ہے، استلام کرتے تھے۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2804
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2901
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3118
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت مانگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزدلفہ کی رات کو کہ آپ سے پہلے منیٰ کو لوٹ جائیں اور لوگوں کی بھیڑ بھاڑ سے آگے نکل جائیں اور وہ ذرا فربہ بی بی تھیں، راوی نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2808
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے سوال کیا گیا احرام باندھنے والے کے بارے میں تو آپ نے کہا: میں نے ان سے سنا۔ پھر راوی ابوزبیر خاموش ہو گئے اور کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3007
مسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ کہتے تھے کہ لبیک پکاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ ے بعد، احرام نہیں کھولا اور نہ ان لوگوں نے جو قربانی لائے تھے اور باقی لوگوں نے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا اور طلحہ بن عبیداللہ ان میں تھے جو قربانی لائے تھے سو ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2841
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں خوشبو لگاتی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبل احرام کے اور نحر کے دن (یعنی بعد رمی جمرہ عقبہ کے) قبل اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف افاضہ کریں بیت اللہ کا اور اس خوشبو میں مسک ہوتا تھا۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3332
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اگر میں کسی ہرن کو مدینہ میں چرتا دیکھتا ہوں تو کبھی نہ ڈراؤں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: کہ ”دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے بیچ میں حرم ہے۔“مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3184
ایک اور سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3277
عاصم سے اسی اسناد سے وہی دعا مذکور ہوئی۔ مگر عبدالواحد کی روایت میں «فِى الْمَالِ وَالأَهْلِ» ہے اور محمد بن حازم کی روایت میں یہ ہے کہ اہل کا لفظ پہلے بولتے جب لوٹتے اور دونوں کی روایتوں میں یہ لفظ ہے «اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ» ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2973
جریری سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اور ابن حاتم کی روایت میں یہ ہے کہ پھر ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3194
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے قربانی روانہ کر دیتے تھے اور میں ان کے گلوں کے ہار بٹ دیا کرتی تھی پھر وہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کیا کرتے تھے جیسے محرم پرہیز کیا کرتا ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3302
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس دن مکہ فتح ہوا کہ ”آج سے مکہ کی ہجرت نہیں رہی مگر جہاد اور نیت باقی ہے اور تم کو حکام جہاد کے لئے بلائیں تو نکلو اور چلو۔“ اور فرمایا: ”کہ ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2800
سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ ہمیشہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کرتے تھے کہ کبھی میں دیکھتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر وحی اترتی ہے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے اور آپ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3294
سیدنا اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ مکہ میں اپنے گھر میں اتریں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھلا عقیل نے ہمارے لیے کوئی چار دیواری یا مکان چھوڑا ہے۔“ اور حقیقت اس کی یہ تھی کہ عقیل اور طالب وارث ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2886
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد ہوا کہ ”پانچ جانور ہیں کہ ان کو جس نے حالت احرام میں مارا اس پر کچھ گناہ نہیں ان کے قتل میں بچھو اور چوہا اور کٹ کھنا کتا اور کوا اور چیل۔“مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2926
یحییٰ سے بھی اس کی مثل حدیث موجود ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے