Hadith no 4678 Of Sahih Muslim Chapter Jihad Aur Us Ke Doraan Rasool SAW Ke Ikhtiar Kerda Tareeqe (Methods adopted by Prophet SAW about and during Jihad)

Read Sahih Muslim Hadith No 4678 - Hadith No 4678 is from Methods Adopted By Prophet SAW About And During Jihad , Jihad Aur Us Ke Doraan Rasool SAW Ke Ikhtiar Kerda Tareeqe Chapter in the Sahih Muslim Hadees Book, which is written by Imam Muslim. Hadith # 4678 of Imam Muslim covers the topic of Methods Adopted By Prophet SAW About And During Jihad briefly in Sahih Muslim. You can read Hadith No 4678 from Methods Adopted By Prophet SAW About And During Jihad in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.

صحیح مسلم - حدیث نمبر 4678

Hadith No 4678
Book Name Sahih Muslim
Book Writer Imam Muslim
Writer Death 261 ھ
Chapter Name Methods Adopted By Prophet SAW About And During Jihad
Roman Name Jihad Aur Us Ke Doraan Rasool SAW Ke Ikhtiar Kerda Tareeqe
Arabic Name الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
Urdu Name جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے

Urdu Translation

‏‏‏‏ سیدنا ابن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب ہم حدیبیہ میں پہنچے سو ہم چودہ سو آدمی تھے (یہی مشہو روایت ہے اور ایک روایت میں تیرہ سو اور ایک روایت میں پندرہ سو آئے ہیں) اور وہاں پچاس بکریاں تھیں جن کو کنویں کا پانی سیر نہ کر سکتا تھا (یعنی ایسا کم پانی تھا کنویں میں) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کے مینڈھ پر بیٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی یا تھوکا کنویں میں وہ اس وقت ابل آیا۔ پھر ہم نے جانوروں کو پانی پلایا اور خود بھی پیا۔ بعد اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بلایا بیعت کے لیے درخت کی جڑ میں (اسی درخت کو شجرۂ رضوان کہتے ہیں اور اس درخت کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔ «إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّـهَ يَدُ اللَّـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّـهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا» ‏‏‏‏ (۴۸/الفتح: ۱۰) میں نے سب سے پہلے لوگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لیتے رہے لیتے رہے، یہاں تک کہ آدھے آدمی بیعت کر چکے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سلمہ بیعت کر۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں تو آپ سے اول ہی بیعت کر چکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر سہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہتا (بے ہتھیار) دیکھا تو ایک بڑی سی ڈھال یا چھوٹی سی ڈھال دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لینے لگے، یہاں تک کہ لوگ ختم ہونے لگے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سلمہ! مجھ سے بیعت نہیں کرتا۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں تو آپ کی بیعت کر چکا اول لوگوں میں، پھر بیچ کے لوگوں میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر سہی، غرض میں نے تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سلمہ! تیری وہ بڑی ڈھال یا چھوٹی ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا چچا عامر مجھے ملا، وہ نہتا تھا میں نے وہ پھر اس کو دے دی۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری مثال اس اگلے شخص کی سی ہوئی جس نے دعا کی تھی یا اللہ! مجھے ایسا دوست دے جس کو میں اپنی جان سے زیادہ چاہوں۔ پھر مشرکوں نے صلح کے پیام بھیجے یہاں تک کہ ہر ایک طرف کے آدمی دوسری طرف جانے لگے اور ہم نے صلح کر لی، سلمہ نے کہا: میں طلحہ بن عبیداللہ کی خدمت میں تھا، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا، ان کی پیٹھ کھجاتا، ان کی خدمت کرتا، انہی کے ساتھ کھانا کھاتا اور میں نے اپنا گھر بار، دھن دولت سب چھوڑ دیا تھا، اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہو گئی اور ہم میں ہر ایک دوسرے سے ملنے لگا تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے تلے سے کانٹے جھاڑے اور جڑ کے پاس لیٹا۔ اتنے میں چار آدمی مشرکوں میں سے آئے مکہ والوں میں سے اور لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہنے۔ مجھے غصہ آیا، میں دوسرے درخت کے نیچے چلا گیا، انہوں نے اپنے ہتھیار لٹکائے اور لیٹ رہے، وہ اسی حال میں تھے کہ یکایک وادی کے نشیب سے کسی نے آواز دی، دوڑو اے مہاجرین! ابن زینم (صحابی) مارے گئے۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی تلوار سونتی اور ان چاروں آدمیوں پر حملہ کیا، وہ سو رہے تھے، ان کے ہتھیار میں نے لے لیے اور گٹھا بنا کر ایک ہاتھ میں رکھے، پھر میں نے کہا: قسم اس کی جس نے عزت دی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کو، تم میں سے جس نے سر اٹھایا، میں ایک مار دوں گا اس عضو پر جس میں اس کی دونوں آنکھیں ہیں۔ پھر میں ان کو کھینچتا ہوا لایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور میرا چچا عامر عبلات (ایک شاخ ہے قریش کی) میں سے ایک شخص کو لایا جس کو مکرز کہتے تھے وہ اس کو کھینچتا ہوا لایا گھوڑے پر، جس پر جھول پڑی تھی اور ستر آدمیوں کے ساتھ مشرکوں میں سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا۔ پھر فرمایا: چھوڑ دو ان کو۔ مشرکوں کی طرف سے عہد شکنی شروع ہونے دو۔ پھر دوبارہ بھی انہی کی طرف سے ہونے دو۔ (یعنی ہم اگر ان لوگوں کو ماریں تو صلح کے بعد ہماری طرف سے عہد شکنی ہو گی یہ مناسب نہیں پہلے کافروں کی طرف سے عہد شکنی ہو ایک بار نہیں دو بار تب ہم کو بدلہ لینا برا نہیں) آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو معاف کر دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ» ‏‏‏‏ (۴۸/الفتح: ۲۴) اخیر تک یعنی اس اللہ نے ان کے ہاتھوں کو روکا تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو روکا ان سے مکہ کی سرحد میں جب فتح دے چکا تھا تم کو ان پر۔ پھر ہم لوٹے مدینہ کو، راہ میں ایک منزل پر اترے، جہاں ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکوں کے بیچ میں ایک پہاڑ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اس شخص کے لیے جو اس پہاڑ پر چڑھ جائے رات کو اور پہرہ دے آپ کا اور آپ کے اصحاب کا۔ سلمہ نے کہا: میں رات کو اس پہاڑ پر دو یا تین بار چڑھا (اور پہرہ دیتا رہا)، پھر ہم مدینہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیاں اپنے رباح غلام کو دیں اور میں بھی اس کے ساتھ تھا، طلحہ کا گھوڑا لیے ہوئے چراگاہ میں پہنچانے کے لیے ان اونٹنیوں کے ساتھ، جب صبح ہوئی تو عبدالرحمٰن فزاری (مشرک) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا اور سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو مار ڈالا۔ میں نے کہا: اے رباح! تو یہ گھوڑا لے اور طلحہ کے پاس پہنچا دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر کہ کافروں نے آپ کی اونٹنیاں لوٹ لیں، پھر میں ایک ٹیلہ پر کھڑا ہوا اور مدینہ کی طرف منہ کر کے میں تین بار آوز دی «يا صباحاه» بعد اس کے میں ان لٹیروں کے پیچھے روانہ ہوا تیر مارتا ہوا اور رجز پڑھتا ہوا «انا ابن الاكوع واليوم يوم الرضع» یعنی میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ پھر میں کسی کے قریب ہوتا اور ایک تیر اس کی کاٹھی میں مارتا جو اس کے کاندھے تک پہنچ جاتا (کاٹھی کو چیر کر) اور کہتا یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے، پھر قسم اللہ کی میں برابر تیر مارتا رہا اور زخمی کرتا رہا جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا تو میں درخت کے تلے آ کر اس کی جڑ میں بیٹھ جاتا اور ایک تیر مارتا وہ سوار زخمی ہو جاتا یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے تنگ راستے میں گھسے اور میں پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور وہاں سے پتھر مارنا شروع کیے اور برابر ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ کوئی اونٹ جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کا تھا نہ بچا جو میرے پیچھے نہ رہ گیا اور لٹیروں نے اس کو نہ چھوڑ دیا ہو (تو سب اونٹ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے ان سے چھین لیے) سلمہ نے کہا: پھر میں ان کے پیچھے چلا، تیر مارتا ہوا یہاں تک کہ تیس چادروں میں سے زیادہ اور تیس بھالوں سے زیادہ ان سے چھینیں وہ اپنے تئیں ہلکا کرتے تھے (بھاگنے کے لئے) اور جو چیز وہ پھینکتے میں اس پر ایک نشان رکھ دیتا پتھر کا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اس کو پہچان لیں (کہ یہ غنیمت کا مال ہے اور اس کو لے لیں) یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے اور وہاں ان کو بدر فزاری کا بیٹا ملا، وہ سب بیٹھے صبح کا ناشتہ کرنے لگے اور میں ایک چھوٹی ٹیکری کی چوٹی پر بیٹھا۔ فزاری نے کہا: یہ کون شخص ہے۔ وہ بولے اس شخص نے ہم کو تنگ کر دیا۔ قسم اللہ کی اندھیری رات سے ہمارے ساتھ ہے برابر تیر مارے جاتا ہے یہاں تک کہ جو کچھ ہمارے پاس تھا سب چھین لیا۔ فزاری نے کہا: تم میں سے چار آدمی اس کو جا کر مار لیں۔ یہ سن کر چار آدمی میری طرف چڑھے پہاڑ پر جب وہ اتنے دور آ گئے کہ میری بات سن سکیں تو میں نے کہا: تم مجھے جانتے ہو۔ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: میں سلمہ ہوں، اکوع کا بیٹا (اکوع ان کے دادا تھے لیکن دادا کی طرف اپنے کو منسوب کیا بوجہ شہرت کے اور سلمہ کے باپ کا نام عمرو تھا اور عامر ان کے چچا تھے کیوں کہ وہ اکوع کے بیٹے تھے) قسم اس ذات کی جس نے بزرگی دی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کو میں تم میں سے جس کو چاہوں گا مارڈالوں گا (تیر سے) اور تم میں سے کوئی مجھے نہیں مار سکتا، ان میں ایک شخص بولا۔ یہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے پھر وہ سب لوٹے۔ میں وہاں سے نہیں چلا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار نظر آئے جو درختوں میں گھس رہے تھے۔ سب سے آگے اخرم اسدی تھے، ان کے پیچھے ابوقتادہ اان کے پیچھے مقداد بن اسود کندی۔ میں نے اخرم کے گھوڑے کی باگ تھام لی، یہ دیکھ کر وہ لٹیرے بھاگے۔ میں کہا: اے اخرم تم ان سے بچے رہنا ایسا نہ ہو یہ تم کو مار ڈالیں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نہ آ لیں۔ انہوں نے کہا: اے سلمہ! اگر تجھ کو یقین ہے اللہ کا اور آخرت کے دن کا اور تو جانتا ہے کہ جنت سچ ہے اور جہنم سچ ہے تو مت روک مجھ کو شہادت سے۔ (یعنی بہت ہو گا تو یہی کہ میں ان لوگوں کے ہاتھ شہید ہوں گا اس سے کیا بہتر ہے) میں نے ان کو چھوڑ دیا، ان کا مقابلہ ہوا عبدالرحمٰن فزاری، سے اخرم نے اس کے گھوڑے کو زخمی کیا اور عبدالرحمٰن نے برچھی سے اخرم کو شہید کیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا، اتنے میں سیدنا ابوقتادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوار آن پہنچے اور انہوں نے عبدالرحمٰن کو برچھی مار کر قتل کیا تو قسم اس کی جس نے بزرگی دی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کو میں ان کا پیچھا کئے گیا، میں اپنے پاؤں سے ایسا دوڑ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے آپ کا کوئی صحابی نہ دکھلائی دیا نہ ان کا غبار یہاں تک کہ وہ لٹیرے آفتاب ڈوبنے سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچے جہاں پانی تھا اور اس کا نام ذی قرد تھا، وہ اترے پانی پینے کو پیاسے تھے، پھر مجھے دیکھا، میں ان کے پیچھے دوڑتا چلا آتا تھا آخر میں نے ان کو پانی پر سے ہٹا دیا وہ ایک قطرہ بھی نہ پی سکے، اب وہ دوڑتے چلے کسی گھاٹی کی طرف۔ میں بھی دوڑا اور ان میں سے کسی کو پاکر ایک تیر لگا دیا اس کے شانے کی ہڈی میں۔ اور میں نے کہا: لے اس کو اور میں بیٹا ہوں اکوع کا اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا ہے۔ وہ بولا (اللہ کرے اکوع کا بیٹا مرے اور) اس کی ماں اس پر روئے۔ کیا وہی اکوع ہے جو صبح کو میرے ساتھ تھا۔ میں نے کہا: ہاں اے دشمن اپنی جان کے وہی اکوع ہے جو صبح کو تیرے ساتھ تھا۔ سلمہ بن اکوع نے کہا: ان لٹیروں کے دو گھوڑے سقط ہو گئے (دوڑتے دوڑتے) انہوں نے ان کو چھوڑ دیا ایک گھاٹی میں، میں ان گھوڑوں کو کھینچتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا۔ وہاں مجھ کو عامر ملے ایک چھاگل دودھ کی پانی ملا ہوا اور ایک چھاگل پانی کی لیے ہوئے، میں نے وضو کیا اور دودھ پیا (اللہ اکبر! سلمہ بن اکوع کی ہمت صبح سویرے سے دوڑتے دوڑتے رات ہو گئی گھوڑے تھک گئے، اونٹ تھک گئے، لوگ مر گئے، اسباب رہ گیا پر سلمہ نہ تھکے اور دن بھر میں کچھ کھایا نہ پیا اللہ جل جلالہ کی امداد تھی) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب اونٹ لے لیے ہیں اور سب چیزیں جو میں نے مشرکوں سے چھینی تھیں سب برچھی اور چادریں اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان اونٹوں میں سے جو میں نے چھینی تھی ایک اونٹ نحر کیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کی کلیجی اور کوہان بھون رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دیجیئے مجھ کو اجازت لشکر میں سے سو آدمی چن لینے کی پھر میں لٹیروں کا پیچھا کرتا ہوں اور ان میں سے کوئی شخص باقی نہیں رہے جو خبر دے اپنی قوم کو جا کر (یعنی سب کو مار ڈالتا ہوں) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے، یہاں تک داڑھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھل گئیں انگار کی روشنی میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سلمہ! تو یہ کر سکتا ہے۔ میں نے کہا: ہاں! قسم اس کی جس نے آپ کو بزرگی دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو اب غطفان کی سرحد میں پہنچ گئے وہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔ اتنے میں ایک شخص آیا غطفان میں سے۔ وہ بولا: فلاں شخص نے ان کے لیے ایک اونٹ کاٹا تھا وہ اس کی کھال نکال رہے تھے۔ اتنے میں ان کو گرد معلوم ہوئی۔ وہ کہنے لگے لوگ آ گئے تو وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے دن ہمارے سواروں میں بہتر سوار ابوقتادہ ہیں اور پیادوں میں سب سے بڑھ کر سلمہ بن اکوع ہیں۔ سلمہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دو حصہ دیئے۔ ایک حصہ سوار کا اور ایک حصہ پیادے کا اور دونوں مجھ ہی کو دے دیئے۔ بعد اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا عضباء پر مدینہ کو لوٹتے وقت۔ ہم چل رہے تھے کہ ایک انصاری جو دوڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا تھا کہنے لگا کوئی ہے جو مدینہ کو مجھ سے آگے دوڑ جائے اور بار بار یہی کہتا تھا جب میں نے اس کا کہنا سنا تو اس سے کہا تو بزرگ کی بزرگی نہیں کرتا اور بزرگ سے نہیں ڈرتا۔ وہ بولا: نہیں، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، مجھے چھوڑ دیجئے میں اس مرد سے آگے بڑھوں گا دوڑ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اگر تیرا جی چاہے۔ تب میں نے کہا میں آتا ہوں تیری طرف اور میں نے اپنا پاؤں ٹیڑھا کیا اور کود پڑا پھر میں دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہے تو دم کو سنبھالا پھر جو دوڑا تو اس سے مل گیا۔ یہاں تک کہ ایک گھونسا دیا میں نے اس کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں اور میں نے کہا: قسم اللہ کی اب میں آگے بڑھا پھر اس سے آگے پہنچا مدینہ کو (تو معلوم ہوا کہ مسابقت درست ہے بلاعوض اور بعوض میں خلاف ہے) پھر قسم اللہ کی ہم صرف تین رات ٹھہرے بعد اس کے خیبر کی طرف نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو میرے چچا عامر نے رجز پڑھنا شروع کیا۔ قسم اللہ کی اگر اللہ ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے، نہ نماز پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے بے پروا نہیں ہوئے تو جما رکھ ہمارے پاؤں کو اگر کافروں سے ملیں اور اپنی رحمت اور تسلی اتار ہمارے اوپر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: عامر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ بخشے تجھ کو۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لیے خاص طور پر استغفار کرتے تو وہ ضرور شہید ہوتا تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پکارا اور وہ اپنے اونٹ پر تھے۔ یا نبی اللہ! آپ نے ہم کو فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا عامر سے، سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر جب ہم خیبر میں آئے تو اس کا بادشاہ مرحب تلوار ہلاتا ہوا نکلا اور یہ رجز پڑھتا تھا «‏‏‏‏قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّى مَرْحَبُ شَاكِى السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ» یعنی خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں پورا ہتھیار بند بہادر آزمودہ کار جب لڑائیاں آئیں شعلے اڑاتی ہوئی۔ یہ سن کر میرے چچا عامر نکلے اس کے مقابلہ کے لیے اور انہوں نے یہ رجز پڑھا «عقَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّى عَامِرٌ شَاكِى السِّلاَحِ بَطَلٌ مُغَامِرٌ» یعنی خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں۔ پور ہتھیار بند لڑائی میں گھسنے والا۔ پھر دونوں کا ایک ایک وار ہوا تو مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کی ڈھال پر پڑی اور عامر نے نیچے سے وار کرنا چاہا تو ان کی تلوار انہی کو آ لگی اور شہ رگ کٹ گئی اسی سے مر گئے۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو دیکھا وہ کہہ رہے ہیں عامر کا عمل لغو ہو گیا اس نے اپنے تئیں آپ مار ڈالا۔ یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا روتا ہوا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! عامر کا عمل لغو ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون کہتا ہے۔ میں نے کہا: آپ کے اصحاب کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جھوٹ کہا جس نے کہا بلکہ اس کو دوہرا ثواب ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے شخص کو نشان دوں گا جو دوست رکھتا ہے اللہ اور اس کے رسول کو یا اللہ اور رسول اس کو دوست رکھتے ہیں۔ (ابن ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ فتح دے گا اس کے ہاتھوں پر اور وہ بھاگنے والا نہیں) سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان کو لیا کھینچتا ہوا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا وہ اسی وقت اچھے ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نشان دیا اور مرحب نکلا اور کہنے لگا «‏‏‏‏قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّى مَرْحَبُ شَاكِى السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ» ‏‏‏‏۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں، یہ کہا «أَنَا الَّذِى سَمَّتْنِى أُمِّى حَيْدَرَهْ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ» یعنی میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا۔ مثل اس شیر کے جو جنگلوں میں ہوتا ہے (یعنی شیر ببر) نہایت ڈراؤنی صورت (کہ اس کے دیکھنے سے خوف پیدا ہو) میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلے سندرہ دیتا ہوں۔ (سندرہ صاع سے بڑا پیمانہ ہے یعنی وہ تو میرے اوپر ایک خفیف حملہ کرتے ہیں اور میں ان کا کام ہی تمام کر دیتا ہوں) پھر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی اور وہ اسی وقت جہنم کو روانہ ہوا۔ بعد اس کے اللہ تعالیٰ نے فتح دی ان کے ہاتھوں پر۔ ایک اور سند کے ساتھ سیدنا عکرمہ بن عمار رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اس حدیث سے بھی زیادہ تفصیل سے نقل کی ہے۔ اور دوسری میں اسی طرح ہے۔

Hadith in Arabic

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ كِلَاهُمَا ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ وَهَذَا حَدِيثُهُ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ : " قَدِمْنَا الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَعَلَيْهَا خَمْسُونَ شَاةً لَا تُرْوِيهَا ، قَالَ : فَقَعَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَبَا الرَّكِيَّةِ ، فَإِمَّا دَعَا ، وَإِمَّا بَسَقَ فِيهَا ، قَالَ : فَجَاشَتْ فَسَقَيْنَا وَاسْتَقَيْنَا ، قَالَ : ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانَا لِلْبَيْعَةِ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ ، قَالَ : فَبَايَعْتُهُ أَوَّلَ النَّاسِ ثُمَّ بَايَعَ وَبَايَعَ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَسَطٍ مِنَ النَّاسِ ، قَالَ : بَايِعْ يَا سَلَمَةُ ، قَالَ : قُلْتُ : قَدْ بَايَعْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فِي أَوَّلِ النَّاسِ ، قَالَ : وَأَيْضًا ، قَالَ : وَرَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَزِلًا يَعْنِي لَيْسَ مَعَهُ سِلَاحٌ ، قَالَ : فَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَفَةً أَوْ دَرَقَةً ثُمَّ بَايَعَ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ النَّاسِ ، قَالَ : أَلَا تُبَايِعُنِي يَا سَلَمَةُ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ : قَدْ بَايَعْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فِي أَوَّلِ النَّاسِ ، وَفِي أَوْسَطِ النَّاسِ ، قَالَ : وَأَيْضًا ، قَالَ : فَبَايَعْتُهُ الثَّالِثَةَ ، ثُمَّ قَالَ لِي يَا سَلَمَةُ : أَيْنَ حَجَفَتُكَ أَوْ دَرَقَتُكَ الَّتِي أَعْطَيْتُكَ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لَقِيَنِي عَمِّي عَامِرٌ عَزِلًا ، فَأَعْطَيْتُهُ إِيَّاهَا ، قَالَ : فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَ : إِنَّكَ كَالَّذِي قَالَ الْأَوَّلُ اللَّهُمَّ أَبْغِنِي حَبِيبًا هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي ، ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ رَاسَلُونَا الصُّلْحَ حَتَّى مَشَى بَعْضُنَا فِي بَعْضٍ وَاصْطَلَحْنَا ، قَالَ : وَكُنْتُ تَبِيعًا لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَسْقِي فَرَسَهُ وَأَحُسُّهُ وَأَخْدِمُهُ وَآكُلُ مِنْ طَعَامِهِ ، وَتَرَكْتُ أَهْلِي وَمَالِي مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَلَمَّا اصْطَلَحْنَا نَحْنُ وَأَهْلُ مَكَّةَ وَاخْتَلَطَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ ، أَتَيْتُ شَجَرَةً فَكَسَحْتُ شَوْكَهَا ، فَاضْطَجَعْتُ فِي أَصْلِهَا ، قَالَ : فَأَتَانِي أَرْبَعَةٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ ، فَجَعَلُوا يَقَعُونَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَبْغَضْتُهُمْ فَتَحَوَّلْتُ إِلَى شَجَرَةٍ أُخْرَى وَعَلَّقُوا سِلَاحَهُمْ وَاضْطَجَعُوا ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَادَى مُنَادٍ مِنْ أَسْفَلِ الْوَادِي ، يَا لِلْمُهَاجِرِينَ قُتِلَ ابْنُ زُنَيْمٍ ، قَالَ : فَاخْتَرَطْتُ سَيْفِي ثُمَّ شَدَدْتُ عَلَى أُولَئِكَ الْأَرْبَعَةِ وَهُمْ رُقُودٌ ، فَأَخَذْتُ سِلَاحَهُمْ فَجَعَلْتُهُ ضِغْثًا فِي يَدِي ، قَالَ ، ثُمَّ قُلْتُ : وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ لَا يَرْفَعُ أَحَدٌ مِنْكُمْ رَأْسَهُ إِلَّا ضَرَبْتُ الَّذِي فِيهِ عَيْنَاهُ ، قَالَ : ثُمَّ جِئْتُ بِهِمْ أَسُوقُهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : وَجَاءَ عَمِّي عَامِرٌ بِرَجُلٍ مِنْ الْعَبَلَاتِ يُقَالُ لَهُ مِكْرَزٌ يَقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ ، مُجَفَّفٍ فِي سَبْعِينَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : دَعُوهُمْ يَكُنْ لَهُمْ بَدْءُ الْفُجُورِ ، وَثِنَاهُ فَعَفَا عَنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ سورة الفتح آية 24 الْآيَةَ كُلَّهَا ، قَالَ : ثُمَّ خَرَجْنَا رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي لَحْيَانَ جَبَلٌ وَهُمُ الْمُشْرِكُونَ ، فَاسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ رَقِيَ هَذَا الْجَبَلَ اللَّيْلَةَ ، كَأَنَّهُ طَلِيعَةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ ، قَالَ سَلَمَةُ : فَرَقِيتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا ، ثُمَّ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، بِظَهْرِهِ مَعَ رَبَاحٍ غُلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ ، وَخَرَجْتُ مَعَهُ بِفَرَسِ طَلْحَةَ أُنَدِّيهِ مَعَ الظَّهْرِ ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْفَزَارِيُّ قَدْ أَغَارَ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَاسْتَاقَهُ أَجْمَعَ وَقَتَلَ رَاعِيَهُ ، قَالَ : فَقُلْتُ يَا رَبَاحُ : خُذْ هَذَا الْفَرَسَ ، فَأَبْلِغْهُ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْمُشْرِكِينَ قَدْ أَغَارُوا عَلَى سَرْحِهِ ، قَالَ : ثُمَّ قُمْتُ عَلَى أَكَمَةٍ ، فَاسْتَقْبَلْتُ الْمَدِينَةَ ، فَنَادَيْتُ ثَلَاثًا يَا صَبَاحَاهْ ، ثُمَّ خَرَجْتُ فِي آثَارِ الْقَوْمِ أَرْمِيهِمْ بِالنَّبْلِ وَأَرْتَجِزُ ، أَقُولُ : أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ ، فَأَلْحَقُ رَجُلًا مِنْهُمْ ، فَأَصُكُّ سَهْمًا فِي رَحْلِهِ حَتَّى خَلَصَ نَصْلُ السَّهْمِ إِلَى كَتِفِهِ ، قَالَ : قُلْتُ : خُذْهَا ، وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ ، قَالَ : فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ أَرْمِيهِمْ وَأَعْقِرُ بِهِمْ ، فَإِذَا رَجَعَ إِلَيَّ فَارِسٌ أَتَيْتُ شَجَرَةً ، فَجَلَسْتُ فِي أَصْلِهَا ثُمَّ رَمَيْتُهُ ، فَعَقَرْتُ بِهِ حَتَّى إِذَا تَضَايَقَ الْجَبَلُ ، فَدَخَلُوا فِي تَضَايُقِهِ عَلَوْتُ الْجَبَلَ ، فَجَعَلْتُ أُرَدِّيهِمْ بِالْحِجَارَةِ ، قَالَ : فَمَا زِلْتُ كَذَلِكَ أَتْبَعُهُمْ حَتَّى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ بَعِيرٍ مِنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِلَّا خَلَّفْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِي وَخَلَّوْا بَيْنِي وَبَيْنَهُ ، ثُمَّ اتَّبَعْتُهُمْ أَرْمِيهِمْ حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً وَثَلَاثِينَ رُمْحًا يَسْتَخِفُّونَ وَلَا يَطْرَحُونَ شَيْئًا ، إِلَّا جَعَلْتُ عَلَيْهِ آرَامًا مِنَ الْحِجَارَةِ يَعْرِفُهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ ، حَتَّى أَتَوْا مُتَضَايِقًا مِنْ ثَنِيَّةٍ ، فَإِذَا هُمْ قَدْ أَتَاهُمْ فُلَانُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِيُّ ، فَجَلَسُوا يَتَضَحَّوْنَ يَعْنِي يَتَغَدَّوْنَ ، وَجَلَسْتُ عَلَى رَأْسِ قَرْنٍ ، قَالَ الْفَزَارِيُّ : مَا هَذَا الَّذِي أَرَى ؟ ، قَالُوا : لَقِينَا مِنْ هَذَا الْبَرْحَ وَاللَّهِ مَا فَارَقَنَا مُنْذُ غَلَسٍ يَرْمِينَا حَتَّى انْتَزَعَ كُلَّ شَيْءٍ فِي أَيْدِينَا ، قَالَ : فَلْيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ أَرْبَعَةٌ ، قَالَ : فَصَعِدَ إِلَيَّ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ فِي الْجَبَلِ ، قَالَ : فَلَمَّا أَمْكَنُونِي مِنَ الْكَلَامِ ، قَالَ : قُلْتُ : هَلْ تَعْرِفُونِي ؟ ، قَالُوا : لَا ، وَمَنْ أَنْتَ ؟ ، قَالَ ، قُلْتُ : أَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ ، وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، لَا أَطْلُبُ رَجُلًا مِنْكُمْ إِلَّا أَدْرَكْتُهُ وَلَا يَطْلُبُنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ فَيُدْرِكَنِي ، قَالَ أَحَدُهُمْ : أَنَا أَظُنُّ ، قَالَ : فَرَجَعُوا ، فَمَا بَرِحْتُ مَكَانِي حَتَّى رَأَيْتُ فَوَارِسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ ، قَالَ : فَإِذَا أَوَّلُهُمْ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِيُّ عَلَى إِثْرِهِ أَبُو قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ ، وَعَلَى إِثْرِهِ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ الْكِنْدِيُّ ، قَالَ : فَأَخَذْتُ بِعِنَانِ الْأَخْرَمِ ، قَالَ : فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ ، قُلْتُ يَا أَخْرَمُ : احْذَرْهُمْ لَا يَقْتَطِعُوكَ حَتَّى يَلْحَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ ، قَالَ يَا سَلَمَةُ : إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ فَلَا تَحُلْ بَيْنِي وَبَيْنَ الشَّهَادَةِ ، قَالَ : فَخَلَّيْتُهُ فَالْتَقَى هُوَ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : فَعَقَرَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَرَسَهُ وَطَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ ، وَتَحَوَّلَ عَلَى فَرَسِهِ وَلَحِقَ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ ، فَطَعَنَهُ فَقَتَلَهُ ، فَوَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَتَبِعْتُهُمْ أَعْدُو عَلَى رِجْلَيَّ حَتَّى مَا أَرَى وَرَائِي مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلَا غُبَارِهِمْ شَيْئًا حَتَّى يَعْدِلُوا قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى شِعْبٍ فِيهِ مَاءٌ ، يُقَالُ لَهُ ذَو قَرَدٍ لِيَشْرَبُوا مِنْهُ وَهُمْ عِطَاشٌ ، قَالَ : فَنَظَرُوا إِلَيَّ أَعْدُو وَرَاءَهُمْ ، فَخَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ يَعْنِي أَجْلَيْتُهُمْ عَنْهُ ، فَمَا ذَاقُوا مِنْهُ قَطْرَةً ، قَالَ : وَيَخْرُجُونَ فَيَشْتَدُّونَ فِي ثَنِيَّةٍ ، قَالَ : فَأَعْدُو فَأَلْحَقُ رَجُلًا مِنْهُمْ ، فَأَصُكُّهُ بِسَهْمٍ فِي نُغْضِ كَتِفِهِ ، قَالَ : قُلْتُ : خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ ، قَالَ : يَا ثَكِلَتْهُ أُمُّهُ أَكْوَعُهُ بُكْرَةَ ، قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ يَا عَدُوَّ نَفْسِهِ أَكْوَعُكَ بُكْرَةَ ، قَالَ : وَأَرْدَوْا فَرَسَيْنِ عَلَى ثَنِيَّةٍ ، قَالَ : فَجِئْتُ بِهِمَا أَسُوقُهُمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : وَلَحِقَنِي عَامِرٌ بِسَطِيحَةٍ فِيهَا مَذْقَةٌ مِنْ لَبَنٍ وَسَطِيحَةٍ فِيهَا مَاءٌ ، فَتَوَضَّأْتُ وَشَرِبْتُ ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمَاءِ الَّذِي حَلَّأْتُهُمْ عَنْهُ ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَخَذَ تِلْكَ الْإِبِلَ وَكُلَّ شَيْءٍ اسْتَنْقَذْتُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَكُلَّ رُمْحٍ وَبُرْدَةٍ ، وَإِذَا بِلَالٌ نَحَرَ نَاقَةً مِنَ الْإِبِلِ الَّذِي اسْتَنْقَذْتُ مِنَ الْقَوْمِ ، وَإِذَا هُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، خَلِّنِي فَأَنْتَخِبُ مِنَ الْقَوْمِ مِائَةَ رَجُلٍ فَأَتَّبِعُ الْقَوْمَ ، فَلَا يَبْقَى مِنْهُمْ مُخْبِرٌ إِلَّا قَتَلْتُهُ ، قَالَ : فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ فِي ضَوْءِ النَّارِ ، فَقَالَ يَا سَلَمَةُ : أَتُرَاكَ كُنْتَ فَاعِلًا ؟ ، قُلْتُ : نَعَمْ وَالَّذِي أَكْرَمَكَ ، فَقَالَ : إِنَّهُمُ الْآنَ لَيُقْرَوْنَ فِي أَرْضِ غَطَفَانَ " ، قَالَ : فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ ، فَقَالَ : نَحَرَ لَهُمْ فُلَانٌ جَزُورًا ، فَلَمَّا كَشَفُوا جِلْدَهَا رَأَوْا غُبَارًا ، فَقَالُوا : أَتَاكُمُ الْقَوْمُ ، فَخَرَجُوا هَارِبِينَ ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَانَ خَيْرَ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ ، وَخَيْرَ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ ، قَالَ : ثُمَّ أَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَيْنِ سَهْمَ الْفَارِسِ وَسَهْمَ الرَّاجِلِ ، فَجَمَعَهُمَا لِي جَمِيعًا ثُمَّ أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَاءَهُ عَلَى الْعَضْبَاءِ رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ ، قَالَ : فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ ، قَالَ : وَكَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ لَا يُسْبَقُ شَدًّا ، قَالَ : فَجَعَلَ يَقُولُ أَلَا مُسَابِقٌ إِلَى الْمَدِينَةِ هَلْ مِنْ مُسَابِقٍ ، فَجَعَلَ يُعِيدُ ذَلِكَ ، قَالَ : فَلَمَّا سَمِعْتُ كَلَامَهُ ، قُلْتُ : أَمَا تُكْرِمُ كَرِيمًا وَلَا تَهَابُ شَرِيفًا ، قَالَ : لَا ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي وَأُمِّي ذَرْنِي فَلِأُسَابِقَ الرَّجُلَ ، قَالَ : إِنْ شِئْتَ ، قَالَ : قُلْتُ : اذْهَبْ إِلَيْكَ وَثَنَيْتُ رِجْلَيَّ فَطَفَرْتُ فَعَدَوْتُ ، قَالَ : فَرَبَطْتُ عَلَيْهِ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ أَسْتَبْقِي نَفَسِي ثُمَّ عَدَوْتُ فِي إِثْرِهِ ، فَرَبَطْتُ عَلَيْهِ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ ، ثُمَّ إِنِّي رَفَعْتُ حَتَّى أَلْحَقَهُ ، قَالَ : فَأَصُكُّهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ ، قَالَ : قُلْتُ : قَدْ سُبِقْتَ وَاللَّهِ ، قَالَ : أَنَا أَظُنُّ ، قَالَ : فَسَبَقْتُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ ، قَالَ : فَوَاللَّهِ مَا لَبِثْنَا إِلَّا ثَلَاثَ لَيَالٍ حَتَّى خَرَجْنَا إِلَى خَيْبَرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَجَعَلَ عَمِّي عَامِرٌ يَرْتَجِزُ بِالْقَوْمِ تَاللَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا ، وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِكَ مَا اسْتَغْنَيْنَا فَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ هَذَا ؟ ، قَالَ : أَنَا عَامِرٌ ، قَالَ : غَفَرَ لَكَ رَبُّكَ ، قَالَ : وَمَا اسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ يَخُصُّهُ إِلَّا اسْتُشْهِدَ ، قَالَ فَنَادَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ عَلَى جَمَلٍ لَهُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْلَا مَا مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمْنَا خَيْبَرَ ، قَالَ : خَرَجَ مَلِكُهُمْ مَرْحَبٌ يَخْطِرُ بِسَيْفِهِ وَيَقُولُ : قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ ، قَالَ وَبَرَزَ لَهُ عَمِّي عَامِرٌ ، فَقَالَ : قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي عَامِرٌ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرٌ ، قَالَ : فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَيْنِ فَوَقَعَ سَيْفُ مَرْحَبٍ فِي تُرْسِ عَامِرٍ وَذَهَبَ عَامِرٌ يَسْفُلُ لَهُ ، فَرَجَعَ سَيْفُهُ عَلَى نَفْسِهِ فَقَطَعَ أَكْحَلَهُ ، فَكَانَتْ فِيهَا نَفْسُهُ ، قَالَ سَلَمَةُ : فَخَرَجْتُ ، فَإِذَا نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُونَ بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ قَتَلَ نَفْسَهُ ، قَالَ : فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ قَالَ ذَلِكَ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ : نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِكَ ، قَالَ : كَذَبَ مَنْ قَالَ ذَلِكَ بَلْ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَى عَلِيٍّ وَهُوَ أَرْمَدُ ، فَقَالَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أَوْ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ، قَالَ : فَأَتَيْتُ عَلِيًّا فَجِئْتُ بِهِ أَقُودُهُ وَهُوَ أَرْمَدُ حَتَّى أَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَبَسَقَ فِي عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ وَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ وَخَرَجَ مَرْحَبٌ ، فَقَالَ : قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ ، فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ ، قَالَ : فَضَرَبَ رَأْسَ مَرْحَبٍ ، فَقَتَلَهُ ثُمَّ كَانَ الْفَتْحُ عَلَى يَدَيْهِ " ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ بِطُولِهِ ، وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْدِيُّ السُّلَمِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ بِهَذَا .

Your Comments/Thoughts ?

جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے سے مزید احادیث

حدیث نمبر 4651

‏‏‏‏ ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین بار دعا کر رہے تھے عاجزی سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: یا اللہ! سمجھ لے قریش سے۔ یا اللہ! تو سمجھ لے قریش سے۔ یا اللہ! تو سمجھ لے قریش سے۔ اور ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4681

‏‏‏‏ ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4554

‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلوا دئیے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4632

‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے قریش نے صلح کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور قریش میں سہیل بن عمرو بھی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے لکھو: «بِسْمِ اللَّـہِ الرَّحْمَـٰنِ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4638

‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ابن ابی عروبہ کی حدیث کی طرح منقول ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4560

‏‏‏‏ ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4599

‏‏‏‏ ہشام نے اپنے باپ (عروہ) سے سنا، انہوں نے کہا: مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد سے فرمایا: تو نے بنی قریظہ کے باب میں وہ حکم دیا جو اللہ عزوجل کا حکم تھا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4612

‏‏‏‏ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں حنین (ایک وادی ہے درمیان مکہ اور طائف کے عرفات کے پرے) کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا، تو میں اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4633

‏‏‏‏ سہل بن حنیف صفین کے روز (جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ میں جنگ تھی) کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! اپنا قصور سمجھو۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جس دن صلح ہوئی حدیبیہ کی اگر ہم لڑائی چاہتے تو لڑتے اور یہ اس صلح کا ذکر ہے جو رسول اللہ مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4541

‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مت آرزو کرو دشمن سے ملنے کی اور جب ملو تو صبر کرو۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4660

‏‏‏‏ ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا اس روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اس وقت تک عبداللہ بن ابی مسلمان نہیں ہوا تھا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4563

‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے ہمارے حصہ کے خمس میں سے زیادہ دیا تو میرے حصہ میں ایک شارف آیا شارف کہتے ہیں بڑے مسنہ اونٹ کو۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4542

‏‏‏‏ ابوالنضر سے روایت ہے، اس نے کتاب پڑھی عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی جو قبیلۂ اسلم سے تھے اور صحابی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، انہوں نے لکھا عمر بن عبیداللہ کو جب وہ گئے خارجیوں کے پاس جو حرورا میں رہتے تھے (ان سے لڑنے کو) کہ رسول اللہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4593

‏‏‏‏ موسیٰ نے ان سندوں کے ساتھ یہ حدیث روایت کی اور ابن جریج کی روایت واضح اور مکمل ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4620

‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے (اور بعض نسخوں میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہے جو عاص کے بیٹے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھیر لیا طائف والوں کو اور نہیں حاصل کیا ان سے کچھ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4680

‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا (ان کی ماں) نے حنین کے دن ایک خنجر لیا، وہ ان کے پاس تھا، یہ ابوطلحہ نے دیکھا تو عرض کیا، یا رسول اللہ! یہ ام سلیم ہے اور ان کے پاس ایک خنجر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ خنجر کیسا ہے۔ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4534

‏‏‏‏ ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا لیکن اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ یہ فلانے کی دغا بازی ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4572

‏‏‏‏ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم نے جہاد کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوازن کا (جو ۸ ہجری میں ہوا) ایک دن ہم صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنے میں ایک شخص آیا، لال اونٹ پر سوار، ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4637

‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب یہ سورت اتری «إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّه» اخیر تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ کر آ رہے تھے، حدیبہ سے اور صحابہ کو بہت غم اور رنج تھا اور آپ صلی اللہ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 4568

‏‏‏‏ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے جس سال حنین کی لڑائی ہوئی۔ جب ہم لوگ دشمنوں سے بھڑے تو مسلمانوں کو شکست ہوئی (یعنی کچھ مسلمان بھاگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کچھ آپ مکمل حدیث پڑھیئے