Hadith no 6359 Of Sahih Muslim Chapter Sahaba Karaam R.A Ke Fazail O Munaqib (Vistues of Companions of Prophet SAW)

Read Sahih Muslim Hadith No 6359 - Hadith No 6359 is from Vistues Of Companions Of Prophet SAW , Sahaba Karaam R.A Ke Fazail O Munaqib Chapter in the Sahih Muslim Hadees Book, which is written by Imam Muslim. Hadith # 6359 of Imam Muslim covers the topic of Vistues Of Companions Of Prophet SAW briefly in Sahih Muslim. You can read Hadith No 6359 from Vistues Of Companions Of Prophet SAW in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.

صحیح مسلم - حدیث نمبر 6359

Hadith No 6359
Book Name Sahih Muslim
Book Writer Imam Muslim
Writer Death 261 ھ
Chapter Name Vistues Of Companions Of Prophet SAW
Roman Name Sahaba Karaam R.A Ke Fazail O Munaqib
Arabic Name فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ
Urdu Name صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب

Urdu Translation

‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اپنی قوم غفار میں سے نکلے وہ حرام مہینے کو بھی حلال سمجھتے تھے، تو میں اور میرا بھائی انیس اور ہماری ماں تنیوں نکلے اور ایک ماموں تھا ہمارا اس کے پاس اترے۔ اس نے ہماری خاطر کی اور ہمارے ساتھ نیکی کی اس کی قوم نے ہم سے حسد کیا اور کہنے لگے (ہمارے ماموں سے) جب تو اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو انیس تیری بی بی کے ساتھ زنا کرتا ہے اور وہ ہمارے پاس آيا اور اس نے یہ بات مشہور کر دی (حماقت سے)، میں نے کہا: تو نے جو ہمارے ساتھ احسان کیا وہ بھی خراب ہو گیا، اب ہم تیرے ساتھ نہیں رہ سکتے، آخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادا، ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کیا، ہم چلے یہاں تک کہ مکہ کے سامنے اترے۔ انیس نے ایک شرط لگائی اتنے اونٹوں پر جو ہمارے ساتھ تھےاور اتنے ہی اور پر، پھر دونوں کاہن کے پاس گئے۔ کاہن نے انیس کو کہا کہ یہ بہتر ہے۔ انیس ہمارے اونٹ لایا اور اتنے ہی اور اونٹ لایا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے بیٹے میرے بھائی کے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے پہلے نماز پڑھی ہے تین برس پہلے۔ میں نے کہا: کس کے لیے پڑھتے تھے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے لیے۔ میں نے کہا: منہ کدھر کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: منہ ادھر کرتا تھا جدھر اللہ تعالیٰ میرا منہ کر دیتا تھا۔ میں عشاء کی نماز پڑھتا جب اخیر رات ہوتی تو کمبل کی طرح پڑ جاتا تھا یہاں تک کہ آفتاب میرے اوپر آتا انیس نے کہا: مجھے مکہ میں کام ہے تم یہاں رہو میں جاتا ہوں وہ گیا، اس نے دیر کی، پھر آیا میں نے کہا: تو نے کیا کیا؟ وہ بولا: میں ایک شخص سے ملا مکہ میں جو تیرے دین پر ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے، میں نے کہا: لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: لوگ اس کو شاعر، کاہن، جادوگر کہتے ہیں اور انیس خود بھی شاعرتھا اس نے کہا: میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں پر رکھا تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد نہ جڑے گا شعر کی طرح۔ اللہ کی قسم! وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں، میں نے کہا: تم یہاں رہو میں اس شخص کو جا کر دیکھتا ہوں، پھر میں مکہ میں آیا۔ میں نے ایک ناتوان شخص کو مکہ والوں میں سے چھانٹا (اس لیےکہ زبردست شخص شاید مجھے تکلیف پہنچا دے) اور اس سے پوچھا: وہ شخص کہاں ہے جس کو تم «صابي» کہتے ہو (یعنی دین بدلنے والا عرب کےکفار معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو «صابي» کہتے تھے) اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا: یہ «صابي» ہے (جب «صابي» کا تو پوچھتا ہے) یہ سن کر تمام وادی والے ڈھیلے ہڈیاں لے کر مجھ پر پلے یہاں تک کہ میں بےہوش ہو کر گرا۔ جب میں ہوش میں آ کر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں گویا میں لال بت ہوں (یعنی سر سے پیر تک خون سے لال ہوں) پھر میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے سب خون دھویا اور زمزم کا پانی پیا، تو اے بھتیجے میرے! میں وہاں تیس راتیں اور تیس دن رہا اور کوئی کھانا میرے پاس نہ تھا سوائے زمزم کے پانی کے (جب مجھے بھوک لگتی تو اس کو پی لیتا) پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی بٹیں جھک گئیں (مٹاپے سے) اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی ایک بار مکہ والے چاندنی رات میں سو گئے اس وقت بیت اللہ کا طواف کوئی نہیں کرتا تھا صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں (اساف اور نائلہ دو بت تھے مکہ میں اساف مرد تھا اور نائلہ عورت تھی کفار کا یہ اعتقاد تھا کہ ان دونوں نے وہاں زنا کیا تھا اس وجہ سے مسخ ہو کر بت ہو گئے تھے) وہ طواف کرتی کرتی میرے سامنے آئیں۔ میں نے کہا: ایک کا نکاح دوسرے سے کر دو (یعنی اساف کا نائلہ سے) یہ سن کر بھی وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں پھر میں نے صاف کہہ دیا ان کے فلاں میں لکڑی (یعنی یہ فحش اساف اور نائلہ کی پرستش کی وجہ ہے) اور مجھے کنایہ نہیں آتا (یعنی کنایہ اشارہ میں میں نے گالی نہیں دی کھلم کھلا گالی دی اساف اور نائلہ کو ان مردوں اور عورتوں کو غصہ دلانے کے لیے جو اللہ تعالیٰ کے گھر میں اللہ کو چھوڑ کر اساف اور نائلہ کو پکارتی تھیں) یہ سن کر وہ دونوں عورتیں چلاتی اور کہتی ہوئی چلیں: کاش اس وقت میں کوئی ہمارے لوگوں میں سے ہوتا (جو اس شخص کو بےادبی کی سزا دیتا) راہ میں ان عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ملے اور وہ اتر رہے تھے پہاڑ سے، انہوں نے ان عورتوں سے پوچھا کیا ہوا؟ وہ بولیں ایک «صابي» آیا ہے جو کعبہ کے پردوں میں چھپا ہے، انہوں نے کہا: وہ «صابي» کیا بولا: وہ بولیں: ایسی بات بولا جس سے منہ بھر جاتا ہے (یعنی اس کو زبان سے نکال نہیں سکتیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ حجر اسود کو بوسہ دیا اور طواف کیا اپنے صاحب کے ساتھ، پھر نماز پڑھی، جب نماز پڑھ چکے تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ہی اول اسلام کی سنت ادا کی اور کہا: السلام علیک یا رسول اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وعلیک ورحمة الله پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو کون ہے؟ میں نے کہا غفار کا ایک شخص ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں (جیسے کوئی ذکر کرتا ہے) میں نے اپنے دل میں کہا: شایدآ پ کو برا معلوم ہوا یہ کہناکہ میں غفار میں سے ہوں، میں لپکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنے کو لیکن آپ کےصاحب نے (سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے) نے جو مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حال جانتے تھے مجھےروکا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا: تو یہاں کب آیا؟ میں نے عرض کیا: میں یہاں تیس رات یا دن سے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھےکھانا کون کھلاتا ہے؟، میں نے کہا: کھانا وغیرہ کچھ نہیں سوائے زمزم کے پانی کے۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑ گئے اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمزم کا پانی برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی ہے اور پیٹ بھر دیتا ہے کھانے کی طرح۔ سیدنا ابوبکر نے کہا: یا رسول اللہ! آج کی رات مجھے اجازت دیجئیے اس کو کھلانے کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی، میں بھی ان دونوں کے ساتھ چلا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک دروازہ کھولا اور اس میں سے طائف کے سوکھے انگور نکالنے لگے، یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے کھایا مکہ میں۔ پھر رہا میں جب تک رہا۔ بعد اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے دکھلائی گئی زمین کھجور والی میں سمجھتا ہوں وہ کوئی زمین نہیں ہے سوائے یثرب کے (یثرب مدینہ طیبہ کا نام تھا) تو تو میری طرف سے اپنی قوم کو دین کی دعوت دے شاید اللہ تعالیٰ ان کو نفع دے تیری وجہ سے اور تجھے ثواب دے۔ میں انیس کے پاس آیا۔ اس نے پوچھا: تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میں اسلام لایا اور میں نے تصدیق کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی۔ وہ بولا: تمہارے دین سے مجھے بھی نفرت نہیں ہے، میں بھی اسلام لایا اور میں نے بھی تصدیق کی، پھر ہم دونوں اپنی ماں کے پاس آئے۔ وہ بولی: مجھے بھی تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لائی اور میں نے بھی تصدیق کی، پھر ہم نے اونٹوں پر اسباب لادا یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے آدھی قوم مسلمان ہو گئی اور ان کا امام ایما بن حضہ غفاری تھا وہ ان کا سردار بھی تھا اور آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوں گے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اور آدھی قوم جو باقی تھی وہ بھی مسلمان ہو گئی اور اسلم (ایک قوم ہے) کے لوگ آئے انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم بھی اپنے بھائی غفاریوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں وہ بھی مسلمان ہوئے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غفار کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم کو اللہ نے بچا دیا۔ (قتل اور قید سے)۔

Hadith in Arabic

حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ : " خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ ، وَكَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ ، فَخَرَجْتُ أَنَا وَأَخِي أُنَيْسٌ وَأُمُّنَا فَنَزَلْنَا عَلَى خَالٍ لَنَا ، فَأَكْرَمَنَا خَالُنَا ، وَأَحْسَنَ إِلَيْنَا فَحَسَدَنَا قَوْمُهُ ، فَقَالُوا : إِنَّكَ إِذَا عَنْ أَهْلِكَ خَالَفَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ ، فَجَاءَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْنَا الَّذِي قِيلَ لَهُ ، فَقُلْتُ : أَمَّا مَا مَضَى مِنْ مَعْرُوفِكَ فَقَدْ كَدَّرْتَهُ ، وَلَا جِمَاعَ لَكَ فِيمَا بَعْدُ ، فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا وَتَغَطَّى خَالُنَا ثَوْبَهُ ، فَجَعَلَ يَبْكِي فَانْطَلَقْنَا حَتَّى نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَكَّةَ ، فَنَافَرَ أُنَيْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا ، وَعَنْ مِثْلِهَا فَأَتَيَا الْكَاهِنَ ، فَخَيَّرَ أُنَيْسًا فَأَتَانَا أُنَيْسٌ بِصِرْمَتِنَا ، وَمِثْلِهَا مَعَهَا ، قَالَ : وَقَدْ صَلَّيْتُ يَا ابْنَ أَخِي قَبْلَ أَنْ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثِ سِنِينَ ، قُلْتُ : لِمَنْ ؟ قَالَ : لِلَّهِ ، قُلْتُ : فَأَيْنَ تَوَجَّهُ ؟ قَالَ : أَتَوَجَّهُ حَيْثُ يُوَجِّهُنِي رَبِّي ، أُصَلِّي عِشَاءً حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ كَأَنِّي خِفَاءٌ ، حَتَّى تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ ، فَقَالَ أُنَيْسٌ : إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَكَّةَ فَاكْفِنِي ، فَانْطَلَقَ أُنَيْسٌ حَتَّى أَتَى مَكَّةَ ، فَرَاثَ عَلَيَّ ، ثُمَّ جَاءَ ، فَقُلْتُ : مَا صَنَعْتَ ؟ قَالَ : لَقِيتُ رَجُلًا بِمَكَّةَ عَلَى دِينِكَ ، يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ ، قُلْتُ : فَمَا يَقُولُ النَّاسُ ؟ قَالَ : يَقُولُونَ : شَاعِرٌ كَاهِنٌ ، سَاحِرٌ ، وَكَانَ أُنَيْسٌ أَحَدَ الشُّعَرَاءِ ، قَالَ أُنَيْسٌ : لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ فَمَا هُوَ بِقَوْلِهِمْ ، وَلَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَى أَقْرَاءِ الشِّعْرِ فَمَا يَلْتَئِمُ عَلَى لِسَانِ أَحَدٍ بَعْدِي ، أَنَّهُ شِعْرٌ ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ، قَالَ : قُلْتُ : فَاكْفِنِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ ، قَالَ : فَأَتَيْتُ مَكَّةَ ، فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ ، فَقُلْتُ : أَيْنَ هَذَا الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ ؟ فَأَشَارَ إِلَيَّ ، فَقَالَ الصَّابِئَ : فَمَالَ عَلَيَّ أَهْلُ الْوَادِي بِكُلٍّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ حَتَّى خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ ، قَالَ : فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ ، كَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ ، قَالَ : فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ ، فَغَسَلْتُ عَنِّي الدِّمَاءَ ، وَشَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا ، وَلَقَدْ لَبِثْتُ يَا ابْنَ أَخِي ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ ، وَيَوْمٍ مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ ، فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي ، وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ ، قَالَ : فَبَيْنَا أَهْلِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَاءَ إِضْحِيَانَ ، إِذْ ضُرِبَ عَلَى أَسْمِخَتِهِمْ ، فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ أَحَدٌ ، وَامْرَأَتَيْنِ مِنْهُمْ تَدْعُوَانِ إِسَافًا وَنَائِلَةَ ، قَالَ : فَأَتَتَا عَلَيَّ فِي طَوَافِهِمَا ، فَقُلْتُ : أَنْكِحَا أَحَدَهُمَا الْأُخْرَى ، قَالَ : فَمَا تَنَاهَتَا عَنْ قَوْلِهِمَا ، قَالَ : فَأَتَتَا عَلَيَّ ، فَقُلْتُ : هَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ غَيْرَ أَنِّي لَا أَكْنِي ، فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ ، وَتَقُولَانِ : لَوْ كَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا ، قَالَ : فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا هَابِطَانِ ، قَالَ : مَا لَكُمَا ؟ قَالَتَا : الصَّابِئُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا ، قَالَ : مَا قَالَ لَكُمَا ؟ قَالَتَا إِنَّهُ قَالَ لَنَا : كَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ ، وَطَافَ بِالْبَيْتِ هُوَ وَصَاحِبُهُ ، ثُمَّ صَلَّى ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ ، قَالَ أَبُو ذَرٍّ : فَكُنْتُ أَنَا أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَالَ : وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : مِنْ غِفَارٍ ، قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ ، فَقُلْتُ : فِي نَفْسِي كَرِهَ أَنِ انْتَمَيْتُ إِلَى غِفَارٍ ، فَذَهَبْتُ آخُذُ بِيَدِهِ ، فَقَدَعَنِي صَاحِبُهُ ، وَكَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ قَالَ : مَتَى كُنْتَ هَاهُنَا ؟ قَالَ : قُلْتُ : قَدْ كُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ ، قَالَ : فَمَنْ كَانَ يُطْعِمُكَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ ، فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي ، وَمَا أَجِدُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ ، قَالَ : إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ ، إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ائْذَنْ لِي فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَكْرٍ ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا ، فَفَتَحَ أَبُو بَكْرٍ بَابًا ، فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيبِ الطَّائِفِ ، وَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَكَلْتُهُ بِهَا ، ثُمَّ غَبَرْتُ مَا غَبَرْتُ ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنَّهُ قَدْ وُجِّهَتْ لِي أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ لَا أُرَاهَا إِلَّا يَثْرِبَ ، فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِكَ وَيَأْجُرَكَ فِيهِمْ ، فَأَتَيْتُ أُنَيْسًا ، فَقَالَ : مَا صَنَعْتَ ؟ قُلْتُ : صَنَعْتُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ ، قَالَ : مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكَ ، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَأَتَيْنَا أُمَّنَا ، فَقَالَتْ : مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكُمَا ، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ ، فَاحْتَمَلْنَا حَتَّى أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا ، فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ ، وَكَانَ يَؤُمُّهُمْ أَيْمَاءُ بْنُ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ وَكَانَ سَيِّدَهُمْ ، وَقَالَ : نِصْفُهُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَسْلَمْنَا ، فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمُ الْبَاقِي ، وَجَاءَتْ أَسْلَمُ ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِخْوَتُنَا نُسْلِمُ عَلَى الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ فَأَسْلَمُوا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا ، وَأسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ " .

Your Comments/Thoughts ?

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب سے مزید احادیث

حدیث نمبر 6434

‏‏‏‏ خفاف بن ایماء غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز میں دعا کی: یا اللہ! لعنت کر بنی لحیان پر اور رعل پر، ذکوان پر اور عصیہ پر جنہوں نے نافرمانی کی اللہ کی اور اس کے رسول کی اور بخش دیا اللہ نے غفار کو اور اسلم کو بچا ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6364

‏‏‏‏ ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اتنا زیادہ ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی، میں گھوڑے پر نہیں جمتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: اللہ جما دے اس کو، اور راہ بتانے والا، ہدایت پانے والا بنا ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6484

‏‏‏‏ سلیمان التیمی سے دونوں سندوں کے تحت اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6212

‏‏‏‏ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے کسی باغ میں تھے تکیہ لگائے ہوئے اور ایک لکڑی کو کیچڑ میں کھونس رہے تھے، اتنے میں ایک شخص نے دروازہ کھلوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھول ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6345

‏‏‏‏ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ سامنے رکھا تھا: ان کے واسطے پروردگار کا عرش جھوم گیا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6441

‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلم اور غفار، مزینہ اور جہینہ بہتر ہیں بنی تمیم سے اور بنی عامر سے، اسد اور غطفان سے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6333

‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: قسم اس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ کی کتاب میں کوئی ایسی سورت نہیں ہے مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کہاں اتری اور کوئی آیت ایسی نہیں ہے مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کس باب میں اتری اور جو میں جانتا کسی کو کہ وہ اللہ کی کتاب مجھ سے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6291

‏‏‏‏ ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6187

‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (جب انتقال کیا) اور تابوت میں رکھے گئے تو لوگ ان کے گرد ہو گئے دعا کرتے تھے اور تعریف کرتے تھے اور نماز پڑھتے تھے، ان پر جنازہ کے اٹھائےجانے سے پہلے، میں بھی ان لوگوں میں تھا، میں نہیں ڈرا مگر ایک شخص ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6400

‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تم کہتے ہو کہ ابوہریرہ بہت حدیثیں بیان کرتے ہیں ان کی حدیث کی مانند بیان کیا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6378

‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو سلام کیا، پھر مجھے کسی کام کے لیے بھیجا، میں اپنی ماں کے پاس دیر سے گیا، تو میری ماں نے کہا: تو نے کیوں ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6307

‏‏‏‏ سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی اپنی بیٹی کا نکاح کرنے کے لیے سیدنا علی بن ابی طالب سے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6454

‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کو معدنیات جیسا پاؤ گے۔ (بعض کان سونے کی ہے بعض لوہے کی ویسے ہی آدمی بھی مختلف ہیں کسی کا خاندان عمدہ ہے اصل اچھی ہے کوئی برا ہے) تو بہتر آدمیوں ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6320

‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جنت میں گیا وہاں میں نے آہٹ پائی(کسی کے چلنے کی آواز) میں نے پوچھا: کون ہے؟ لوگوں نے کہا غمیصاء بنت ملحان (ام سلیم رضی اللہ عنہا کانام غمیصاء ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6466

‏‏‏‏ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم نے مغرب کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر ہم نے کہا: اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء آپ کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہو گا، پھر ہم بیٹھے رہے اور آپ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6445

‏‏‏‏ محمد بن عبداللہ بن ابی یعقوب ضبی سے انہی اسناد کے تحت اسی طرح مروی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور «جُهَيْنَةُ» اور لفظ «أَحْسِبُ» نہیں کہا:۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6482

‏‏‏‏ ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6435

‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غفار کو اللہ بخشے اور اسلم کو سلامت رکھے اور عصیہ نے نافرمانی کی اللہ اور اس کے رسول کی۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6286

‏‏‏‏ ہشام سے اس سند کے ساتھ «وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ» کے قول تک مروی ہے اور بعد والے جملے کا ذکر نہیں ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6419

‏‏‏‏ شعبہ سے انہی اسناد کے ساتھ روایت ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے