Hadith no 7016 Of Sahih Muslim Chapter Tauba Ka Bayan (Lecture on Repentance)

Read Sahih Muslim Hadith No 7016 - Hadith No 7016 is from Lecture On Repentance , Tauba Ka Bayan Chapter in the Sahih Muslim Hadees Book, which is written by Imam Muslim. Hadith # 7016 of Imam Muslim covers the topic of Lecture On Repentance briefly in Sahih Muslim. You can read Hadith No 7016 from Lecture On Repentance in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.

صحیح مسلم - حدیث نمبر 7016

Hadith No 7016
Book Name Sahih Muslim
Book Writer Imam Muslim
Writer Death 261 ھ
Chapter Name Lecture On Repentance
Roman Name Tauba Ka Bayan
Arabic Name التَّوْبَةِ
Urdu Name توبہ کا بیان

Urdu Translation

‏‏‏‏ ابن شہاب سے روایت ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کیا تبوک کا (تبوک ایک مقام کا نام ہے مدینہ سے پندرہ منزل پر شام کے راستہ میں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ تھا روم اور عرب کے نصارٰی کو دھمکانے کا شام میں۔ ابن شہاب رحمہ اللہ نے کہا: مجھ سے بیان کیا عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے ان سے بیان کیا عبداللہ بن کعب نے جو کعب کو پکڑ کر چلایا کرتے تھے، ان کے بیٹوں میں سے جب کعب اندھے ہو گئے تھے، انہوں نے کہا: میں نے سنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے، وہ اپنا حال بیان کرتے تھے، جب پیچھے رہ گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کسی جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں رہا سوائے غزوہ تبوک کے، البتہ بدر میں پیچھے رہا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر غصہ نہیں کیا جو پیچھے رہ گیا تھا اور بدر میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ قریش کا قافلہ لوٹنے کے لیے نکلے تھے لیکن اللہ نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے بھڑا دیا (اور قافلہ نکل گیا) بے وقت اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا لیلتہ العقبہ میں (لیلتہ العقبہ وہ رات ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے بیعت لی تھی اسلام پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے پر اور یہ بیعت جمرہ عقبہ کے پاس جو منٰی میں ہے دو بارہ ہوئی۔ پہلی بار میں بارہ انصاری تھے اور دوسری بار میں ستر انصاری تھے) اور میں نہیں چاہتا کہ اس رات کے بدلے میں جنگ بدر میں شریک ہوتا گو جنگ بدر لوگوں میں اس رات سے زیادہ مشہور ہے (یعنی لوگ اس کو افضل کہتے ہیں) اور میرا قصہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے کا یہ ہے کہ جب یہ غزوہ ہوا تو میں سب سے زیادہ طاقتور اور مالدار تھا۔ اللہ کی قسم اس سے پہلے میرے پاس دو اونٹنیاں کبھی نہیں ہوئیں اور اس لڑائی کے وقت میرے پاس دو اونٹنییاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لڑائی کے لیے چلے سخت گرمی کے دنوں میں اور سفر بھی لمبا تھا اور راہ میں جنگل تھے (دور دواز جن میں پانی کم ملتا اور ہلاکت کا خوف ہوتا) اور مقابلہ تھا بہت دشمنوں سے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے واضح طور پر فرما دیا کہ میں اس لڑائی کو جاتا ہوں۔ (حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ اور لڑائیوں میں اپنا ارادہ صاف صاف نہ فرماتے مصلحت سے تاکہ خبر مشہور نہ ہو) تاکہ وہ اپنی تیاری کر لیں۔ پھر ان سے کہہ دیا کہ فلاں طرف ان کو جانا پڑے گا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے مسلمان تھے اور کوئی دفتر نہ تھا، جس میں ان کے نام لکھے ہوتے۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: تو ایسے شخص کم تھے جو غائب رہنا چاہتے اور گمان کرتے کہ یہ امر پوشیدہ رہے گا جب تک اللہ پاک کی طرف سے کوئی وحی نہ اترے اور یہ جہاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کیا جب پھل پک گئے تھے اور سایہ خوب تھا، اور مجھے ان چیزوں کا بہت شوق تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیاری کی اور مسلمانوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیاری کی میں نے بھی صبح کو نکلنا شروع کیا اس ارادہ سے کہ میں بھی ان کے ساتھ تیاری کروں لیکن ہر روز میں لوٹ آتا اور کچھ فیصلہ نہ کرتا اور اپنے دل میں یہ کہتا کہ میں جب چاہوں جا سکتا ہوں، (کیونکہ سامان سفر کا میرے پاس موجود تھا) یوں ہی ہوتا رہا، یہاں تک کہ لوگ برابر کوشش کرتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صبح کے وقت نکلے اور مسلمان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور میں نے کوئی تیاری نہیں کی۔ پھر صبح کو میں نکلا اور لوٹ کر آ گیا اور کوئی فیصلہ نہیں کیا، یہی حال رہا یہاں تک کہ لوگوں نے جلدی کی اور سب مجاہدین آگے نکل گئے، اس وقت میں نے بھی کوچ کا قصد کیا کہ ان سے مل جاؤں تو کاش! میں ایسا کرتا لیکن میری تقدیر میں نہ تھا بعد اس کے جب باہر نکلتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد تو مجھ کو رنج ہوتا کیونکہ میں کوئی پیروی کے لائق نہ پاتا مگر ایسا شخص جس پر منافق ہونے کا گمان تھا یا معذور، ضعیف اور ناتواں لوگوں میں سے، خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ میں میری یاد کہیں نہ کی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے اس وقت فرمایا: کعب بن مالک کہاں گیا؟ ایک شخص بولا: بنی سلمہ میں سے یا رسول اللہ! اس کی چادروں نے اس کو روک رکھا، وہ اپنے دونوں کناروں کو دیکھتا ہے (یعنی اپنے لباس اور نفس میں مشغول اور مصروف ہے)۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: تو نے بری بات کہی، اللہ کی قسم یا رسول اللہ! ہم تو کعب بن مالک کو اچھا سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر چپ ہو رہے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے آ رہا تھا اور ریتے کو اڑا رہا تھا (چلنے کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوخیثمہ ہے۔ پھر وہ ابوخیثمہ ہی تھا اور ابوخیثمہ وہ شخص تھا جس نے ایک صاع کھجور صدقہ دی تھی جب منافقوں نے اس پر طعنہ کیا تھا۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: جب مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے لوٹے مدینہ کی طرف تو میرا رنج بڑھ گیا۔ میں نے جھوٹ باتیں بنانا شروع کیں کہ کوئی بات ایسی کہوں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ مٹ جائے کل کے روز اور اس امر کے لیے میں نے ہر ایک عقلمند شخص سے مدد لینا شروع کی اپنے گھر والوں میں سے یعنی ان سے بھی صلاح لی (کہ کیا بات بتاؤں) جب لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب آ پہنچے اس وقت سارا جھوٹ کافور ہو گیا اور میں سمجھ گیا کہ اب کوئی جھوٹ بنا کر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات نہیں پانے کا، آخر میں نے نیت کر لی سچ بولنے کی، اور صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعتیں پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کر چکے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے، انہوں نے اپنے عذر بیان کرنے شروع کیے اور قسمیں کھانے لگے ایسے اسی (۸۰) سے زیادہ چند آدمی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ظاہر کی بات کو مان لیا اور ان سے بیعت کی اور ان کے لیے دعا کی مغفرت کی اور ان کی نیت (یعنی دل کی بات کو) اللہ کے سپرد کیا، یہاں تک کہ میں بھی آیا جب میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کیا لیکن وہ تبسم جیسے غصہ کی حالت میں کرتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آ!۔ میں چلتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیوں پیچھے رہ گیا تو نے تو سواری بھی خرید لی تھی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں آپ کے سوا کسی اور شخص کے پاس دنیا کے لوگوں میں سے بیٹھتا تو میں یہ خیال کرتا کہ کوئی عذر بیان کر کے اس کے غصہ سے نکل جاؤں گا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے زبان کی قوت دی ہے (یعنی میں عمدہ تقریر کر سکتا ہوں اور خوب بات بنا سکتا ہوں) لیکن قسم اللہ کی میں جانتا ہوں کہ اگر میں کوئی جھوٹ بات آپ سے کہہ دوں اور آپ خوش ہو جائیں مجھ سے تو قریب ہے اللہ تعالیٰ آپ کو میرے اوپر غصہ کر دے گا (یعنی اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلا دے گا کہ میرا عذر غلط اور جھوٹ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو جائیں گے) اور اگر میں آپ سے سچ سچ کہوں گا تو بے شک آپ غصہ ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا انجام بخیر کرے گا۔ اللہ کی قسم! مجھے کوئی عذر نہ تھا۔ اللہ کی قسم! میں کبھی نہ اتنا طاقتور تھا، نہ اتنا مالدار تھا جتنا اس وقت تھا جب آپ سے پیچھے رہ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کعب نے سچ کہا . پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا جا یہاں تک کہ اللہ حکم دے تیرے باب میں۔ میں کھڑا ہوا اور چند لوگ بنی سلمہ کے دوڑ کر میرے پیچھے ہوئے اور مجھ سے کہنے لگے: اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے تم کو تن نے اس سے پہلے کوئی قصور کیا ہو، تو تم عاجز کیوں ہو گئے اور کوئی عذر کیوں نہ کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جیسے اور لوگوں نے جو پیچھے رہ گئے تھے عذر بیان کیے اور تیرا گناہ مٹانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کافی تھا، اللہ کی قسم! وہ لوگ مجھ کو ملامت کرنے لگے یہاں تک کہ میں نے قصد کیا پھر لوٹوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور اپنے تئیں جھوٹا کروں اور کوئی عذر بیان کروں، پھر میں نے ان لوگوں سے کہا: کسی اور کا بھی ایسا حال ہوا ہے جو میرا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں دو شخص اور ہیں، انہوں نے بھی وہی کہا: جو تو نے کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی فرمایا جو تجھ سے فرمایا۔ میں نے پوچھا: وہ دو شخص کون ہیں؟ انہوں نے کہا: مرارہ بن ربیعہ اور ہلال بن امیہ واقفی۔ ان لوگوں نے ایسے دو شخصوں کا نام لیا جو نیک تھے اور بدر کی لڑائی میں موجود تھے اور پیروی کے قابل تھے جب ان لوگوں نے ان دونوں شخصوں کا نام لیا تو میں چلا گیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو منع کر دیا تھا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے، ان لوگوں میں سے جو پیچھے رہ گئے تھے تو لوگوں نے ہم سے پرہیز شروع کیا اور ان کا حال ہمارے ساتھ بالکل بدل گیا یہاں تک کہ زمین بھی گویا بدل گئی وہ زمین ہی نہ رہی جس کو میں پہچانتا تھا پچاس راتوں تک ہمارا یہی حال رہا میرے دونوں ساتھی تو عاجز ہو گئے اور اپنے گھروں میں بیٹھ رہے روتے ہوئے لیکن میں تو سب لوگوں میں کم سن اور زور دار تھا، میں نکلا کرتا تھا اور نماز کے لیے بھی آتا اور بازاروں میں بھی پھرتا پر کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ بیٹھے ہوتے نماز کے بعد اور دل میں یہ کہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لبوں کو ہلایا، اسلام کا جواب دینے کے لیے یا نہیں ہلایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نماز پڑھتا اور دزدیدہ نظر سے (کنکھیوں سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا، تو جب میں نماز ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ پھیر لیتے یہاں تک کہ جب مسلمانوں کی سختی مجھ پر لمبی ہوئی تو میں چلا اور ابوقتادہ کے باغ کی دیواد پر چڑھا۔ ابوقتادہ میرے چچا زاد بھائی تھے اور سب لوگوں سے زیادہ محبت مجھے ان سے تھی، ان کو سلام کیا، تو اللہ کی قسم انہوں نے سلام کا جواب تک نہ دیا (سبحان اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ایسے ہوتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے سامنے بھائی بیٹے کی مروت بھی نہیں کرتے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت نہ ہو تو ایمان کس کام کا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جب معلوم ہو جائے کہ صحیح ہے تو مجتہد اور مولویوں کا قول جو اس کے خلاف ہو دیوار پر مارنا چاہیے اور حدیث پر چلنا چاہیے) میں نے ان سے کہا: اے ابوقتادہ! میں تم کو قسم دیتا ہوں اللہ کی تم یہ نہیں جانتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں، وہ خاموش رہے، پھر سہ بارہ قسم دی تو بولے: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے یہ بھی کعب سے نہیں بولے بلکہ خود اپنے میں بات کی آخر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور میں پیٹھ موڑ کر چلا اور دیوار پر چڑھا۔ میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا تو ایک کسان شام کے کسانوں میں سے جو مدینہ میں اناج بیچنے کے لیے آیا تھا، کہنے لگا: کعب بن مالک کا گھر مجھ کو کون بتائے گا؟ لوگوں نے اس کو اشارہ شروع کیا یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھے ایک خط دیا غسان کے بادشاہ کا، میں منشی تھا، میں نے اس کو پڑھا، اس میں یہ لکھا تھا، بعد حمد و نعت کے کعب کو معلوم ہو کہ ہم کو یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے صاحب نے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ پر جفا کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو ذلت کے گھر میں نہیں کیا نہ اس جگہ جہاں تمہارا حق ضائع ہو تو تم ہم سے مل جاؤ ہم تمہاری خاطر داری کریں گے۔ میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا: یہ بھی ایک بلا ہے اور اس خط کو میں نے چولھے میں جلا دیا۔ جب پچاس دن میں سے چالیس دن گزر گئے اور وحی نہ آئی تو اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لانے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو حکم کرتے ہیں کہ اپنی بیوی سے علیحدہ رہو میں نے کہا: میں اس کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ وہ بولا: نہیں طلاق مت دو صرف الگ رہو اور اس سے صحبت مت کرو اور میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی پیام گیا۔ میں نے اپنی بی بی سے کہا: تو اپنے عزیزوں میں چلی جا اور وہیں رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس باب میں کوئی حکم دے۔ ہلال بن امیہ کی بیوی یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہلال بن امیہ ایک بوڑھا بیکار شخص ہے اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں تو کیا آپ برا سمجھتے ہیں اگر میں اس کی خدمت کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں خدمت کو برا نہیں سمجھتا، لیکن وہ تجھ سے صحبت نہ کرے۔ وہ بولی: اللہ کی قسم! اس کو کسی کام کا خیال نہیں اور اللہ کی قسم! وہ اس دن سے اب تک رو رہا ہے۔ میرے گھر والوں نے کہا: کاش تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے پاس رہنے کی اجازت لے لو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال بن امیہ کی عورت کو اس کی خدمت کرنے کی جازت دی۔ میں نے کہا: میں کبھی اجازت نہ لوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بی بی کے لیے اور معلوم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما دیں گے، اگر میں اجازت لوں اپنی بیوی کے لیے اور میں جوان آدمی ہوں۔ پھر دس راتوں تک میں اسی حال میں رہا یہاں تک کہ پچاس راتیں پوری ہوئیں، اس تاریخ سے جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا ہم سے بات کرنے سے پھر پچاسویں رات کو صبح کے وقت میں نے نماز پڑھی اپنے گھر کی چھت پر۔ میں اسی حال میں بیٹھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارا حال بیان کیا کہ میرا جی تنگ ہو گیا تھا اور زمین مجھ پر تنگ ہو گئی تھی باوجود یہ کہ اتنی کشادہ ہے۔ اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو سلع پر چڑھا (سلع ایک پہاڑ ہے مدینہ میں) اور بلند آواز سے پکارا: اے کعب بن مالک! خوش ہو جا۔ یہ سن کر میں سجدہ میں گرا اور میں نے پہچانا کہ خوشی آئی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خبر کی کہ اللہ نے ہم کو معاف کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ چکے۔ لوگ چلے ہم کو خوشخبری دینے کے لیے تو میرے دونوں ساتھیوں کے پاس چند خوشخبری دینے والے گئے اور ایک شخص نے میرے پاس گھوڑا دوڑایا اور ایک دوڑنے والا دوڑا اسلم کے قبیلے سے میری طرف اور اس کی آواز گھوڑے سے جلد مجھ کو پہنچی۔ جب وہ شخص آیا جس کی آواز میں نے سنی تھی خوشخبری کی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتارے اور اس کو پہنا دئیے، اس کی خوشخبری کے صلہ میں۔ اللہ کی قسم! اس وقت میرے پاس وہی دو کپڑے تھے۔ میں نے دو کپڑے ادھار لیے اور ان کو پہنا اور چلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی نیت سے۔ لوگ مجھ سے ملتے جاتے تھے گروہ گروہ اور مجھ کو مبارک باد دیتے جاتے تھے معافی کی اور کہتے تھے: مبارک ہو تم کو اللہ کی معافی کی تمہارے لیے یہاں تک کہ میں مسجد میں پہنچا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ تھے۔ طلحہ بن عبید اللہ مجھ کو دیکھتے ہی کھڑے ہوئے اور دوڑے یہاں تک کہ مصافحہ کیا مجھ سے اور مجھ کو مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم! مہاجرین میں سے ان کے سوا کوئی شخص کھڑا نہیں ہوا، تو کعب طلحہ کے اس احسان کو نہیں بھولتے تھے۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک دمک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: خوش ہو جا آج کا دن جو تیرے لیے بہتر دن ہے، جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ معافی آپ کی طرف سے ہے یا اللہ جل جلالہ کی طرف سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جلالہ کی طرف سے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چمک جاتا گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم اس بات کو پہچان لیتے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کو) جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری معافی کی خوشی میں میں اپنے مال کو صدقہ کر دوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: تھوڑا مال اپنا رکھ لے۔ میں نے عرض کیا: تو میں اپنا حصہ خیبر کا رکھ لیتا ہوں اور میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آخر سچائی نے مجھے نجات دی اور میری توبہ میں یہ بھی داخل ہے کہ ہمیشہ سچ کہوں گا جب تک زندہ رہوں۔ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان پر ایسا احسان کیا ہو سچ بولنے میں جب سے میں نے یہ ذکر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسا عمدہ انداز سے مجھ پر احسان کیا، اللہ کی قسم! میں نے اس وقت سے کوئی جھوٹ قصداً نہیں بولا: جب سے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آج کے دن تک اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھ کو جھوٹ سے بچائے گا۔ کعب نے کہا: اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں «لَّقَد تَّابَ اللَّـهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (١١٧) وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (١١٨) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (١١٩)» ‏‏‏‏ (التوبة: ۱۱۷-۱۱۹) یعنی بے شک اللہ تعالیٰ نے معاف کیا نبی اور مہاجرین اور انصار کو جنہوں نے ساتھ دیا نبی کا مفلسی کے وقت۔ یہاں تک کہ فرمایا: وہ مہربان ہے رحم والا۔ اور اللہ تعالیٰ نے معاف کیا ان تین شخصوں کو جو پیچھے ڈالے گئے یہاں تک کہ جب زمین ان پر تنگ ہو گئی باوجود کشادگی کے اور ان کے جی بھی تنگ ہو گئے اور سمجھے کہ اب کوئی بچاؤ نہیں اللہ سے مگر اسی کی طرف پھر اللہ نے معاف کیا ان کو تاکہ وہ توبہ کریں بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ایمان والو! ڈرو اللہ تعالیٰ سے اور ساتھ رہو سچوں کے۔ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے اس سے بڑھ کر کوئی احسان مجھ پر نہیں کیا بعد اسلام کے جو اتنا بڑا ہو میرے نزدیک اس بات سے کہ میں نے سچ بول دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور جھوٹ نہیں بولا، ورنہ تباہ ہوتا جیسے جھوٹے تباہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کی جب وحی اتاری تو ایسی برائی کی کہ کسی کی نہ کی تو فرمایا: «سَيَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ لَكُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (٩٥) يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِن تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ (٩٦)» ‏‏‏‏ (التوبة: ۹۵-۹۶) جب تم لوٹ کر آئے تو قسمیں کھانے لگے تاکہ تم کچھ نہ بولو ان سے، سو نہ بولو ان سے وہ ناپاک ہیں، ان کا ٹھکانا جہنم ہے یہ بدلہ ہے ان کی کمائی کا قسمیں کھاتے ہیں تم سے کہ تم خوش ہو جاؤ ان سے۔ سو اگر تم خوش ہو جاؤ ان سے تب بھی اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہو گا بدکاروں سے۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پیچھے ڈالے گئے تینوں آدمی ان لوگوں سے جن کا عذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا جب انہوں نے قسم کھائی تو بیعت کی ان سے اور استغفار کیا ان کے لیے اور ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈال رکھا (یعنی ہمارا مقدمہ ڈال رکھا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا، اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ معاف کیا ان تینوں کو جو پیچھے رہ گئے اور اس لفظ سے (یعنی «خُلِّفُوْا» سے) یہ مراد نہیں ہے کہ ہم جہاد سے پیچھے رہ گئے بلکہ مراد وہی ہے ہمارے مقدمہ کا پیچھے رہنا اور ڈال رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو بہ نسبت ان لوگوں کے جنہوں نے قسم کھائی اور عذر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا ان کے عذر کو۔

Hadith in Arabic

حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ مَوْلَى بَنِي أُمَيَّةَ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : " ثُمَّ غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ وَهُوَ يُرِيدُ الرُّومَ وَنَصَارَى الْعَرَبِ بِالشَّامِ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : فَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ كَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ ، قَالَ : سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ ، قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ : لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ ، إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ ، غَيْرَ أَنِّي قَدْ تَخَلَّفْتُ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ ، وَلَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْهُ ، إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ يُرِيدُونَ عِيرَ قُرَيْشٍ ، حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ ، وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِينَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ ، وَإِنْ كَانَتْ بَدْرٌ أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا ، وَكَانَ مِنْ خَبَرِي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ أَنِّي لَمْ أَكُنْ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ ، وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُ قَبْلَهَا رَاحِلَتَيْنِ قَطُّ حَتَّى جَمَعْتُهُمَا فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ ، فَغَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرٍّ شَدِيدٍ وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا وَمَفَازًا وَاسْتَقْبَلَ عَدُوًّا كَثِيرًا ، فَجَلَا لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُمْ لِيَتَأَهَّبُوا أُهْبَةَ غَزْوِهِمْ ، فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِمُ الَّذِي يُرِيدُ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرٌ وَلَا يَجْمَعُهُمْ كِتَابُ حَافِظٍ يُرِيدُ بِذَلِكَ الدِّيوَانَ ، قَالَ كَعْبٌ : فَقَلَّ رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ يَظُنُّ أَنَّ ذَلِكَ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْيٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الْغَزْوَةَ حِينَ طَابَتِ الثِّمَارُ وَالظِّلَالُ ، فَأَنَا إِلَيْهَا أَصْعَرُ فَتَجَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ ، وَطَفِقْتُ أَغْدُو لِكَيْ أَتَجَهَّزَ مَعَهُمْ ، فَأَرْجِعُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا وَأَقُولُ فِي : نَفْسِي أَنَا قَادِرٌ عَلَى ذَلِكَ إِذَا أَرَدْتُ ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ يَتَمَادَى بِي حَتَّى اسْتَمَرَّ بِالنَّاسِ الْجِدُّ ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَادِيًا وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِي شَيْئًا ثُمَّ غَدَوْتُ ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ يَتَمَادَى بِي حَتَّى أَسْرَعُوا وَتَفَارَطَ الْغَزْوُ ، فَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ فَيَا لَيْتَنِي فَعَلْتُ ، ثُمَّ لَمْ يُقَدَّرْ ذَلِكَ لِي ، فَطَفِقْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْزُنُنِي أَنِّي لَا أَرَى لِي أُسْوَةً إِلَّا رَجُلًا مَغْمُوصًا عَلَيْهِ فِي النِّفَاقِ أَوْ رَجُلًا مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ مِنَ الضُّعَفَاءِ ، وَلَمْ يَذْكُرْنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ تَبُوكَ ، فَقَالَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْقَوْمِ بِتَبُوكَ : مَا فَعَلَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ ؟ ، قَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، حَبَسَهُ بُرْدَاهُ وَالنَّظَرُ فِي عِطْفَيْهِ ، فَقَالَ لَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : بِئْسَ مَا قُلْتَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا ، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَبَيْنَمَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ رَأَى رَجُلًا مُبَيِّضًا يَزُولُ بِهِ السَّرَابُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنْ أَبَا خَيْثَمَةَ ، فَإِذَا هُوَ أَبُو خَيْثَمَةَ الْأَنْصَارِيُّ وَهُوَ الَّذِي تَصَدَّقَ بِصَاعِ التَّمْرِ حِينَ لَمَزَهُ الْمُنَافِقُونَ ، فَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ : فَلَمَّا بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَوَجَّهَ قَافِلًا مِنْ تَبُوكَ حَضَرَنِي بَثِّي ، فَطَفِقْتُ أَتَذَكَّرُ الْكَذِبَ وَأَقُولُ : بِمَ أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا وَأَسْتَعِينُ عَلَى ذَلِكَ كُلَّ ذِي رَأْيٍ مِنْ أَهْلِي ، فَلَمَّا قِيلَ لِي إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِّي الْبَاطِلُ ، حَتَّى عَرَفْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْهُ بِشَيْءٍ أَبَدًا ، فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ وَصَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا ، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ ، فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ ، فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُونَ لَهُ وَكَانُوا بِضْعَةً وَثَمَانِينَ رَجُلًا ، فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ حَتَّى جِئْتُ ، فَلَمَّا سَلَّمْتُ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ ، ثُمَّ قَالَ : تَعَالَ ، فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ ، فَقَالَ لِي : مَا خَلَّفَكَ أَلَمْ تَكُنْ قَدِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ ؟ ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنِّي سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرٍ ، وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا ، وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ تَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يُسْخِطَكَ عَلَيَّ ، وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ إِنِّي لَأَرْجُو فِيهِ عُقْبَى اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَانَ لِي عُذْرٌ ، وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ ، فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ ، فَقُمْتُ وَثَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ ، فَاتَّبَعُونِي ، فَقَالُوا لِي : وَاللَّهِ مَا عَلِمْنَاكَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا ، لَقَدْ عَجَزْتَ فِي أَنْ لَا تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا اعْتَذَرَ بِهِ إِلَيْهِ الْمُخَلَّفُونَ ، فَقَدْ كَانَ كَافِيَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَ ، قَالَ : فَوَاللَّهِ مَا زَالُوا يُؤَنِّبُونَنِي حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُكَذِّبَ نَفْسِي قَالَ : ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ : هَلْ لَقِيَ هَذَا مَعِي مِنْ أَحَدٍ ؟ ، قَالُوا : نَعَمْ لَقِيَهُ مَعَكَ رَجُلَانِ ، قَالَا : مِثْلَ مَا قُلْتَ ؟ فَقِيلَ لَهُمَا مِثْلَ مَا قِيلَ لَكَ ، قَالَ : قُلْتُ : مَنْ هُمَا ؟ ، قَالُوا : مُرَارَةُ بْنُ الرَّبِيعَةَ الْعَامِرِيُّ ، وَهِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيُّ ، قَالَ : فَذَكَرُوا لِي رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا فِيهِمَا أُسْوَةٌ ، قَالَ : فَمَضَيْتُ حِينَ ذَكَرُوهُمَا لِي ، قَالَ : وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلَامِنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ مِنْ بَيْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ ، قَالَ : فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ ، وَقَالَ : تَغَيَّرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ لِي فِي نَفْسِيَ الْأَرْضُ ، فَمَا هِيَ بِالْأَرْضِ الَّتِي أَعْرِفُ ، فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً ، فَأَمَّا صَاحِبَايَ ، فَاسْتَكَانَا وَقَعَدَا فِي بُيُوتِهِمَا يَبْكِيَانِ ، وَأَمَّا أَنَا فَكُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَهُمْ ، فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَشْهَدُ الصَّلَاةَ وَأَطُوفُ فِي الْأَسْوَاقِ ، وَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ ، وَآتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلَاةِ ، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلَامِ أَمْ لَا ، ثُمَّ أُصَلِّي قَرِيبًا مِنْهُ وَأُسَارِقُهُ النَّظَرَ ، فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلَاتِي نَظَرَ إِلَيَّ ، وَإِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِّي حَتَّى إِذَا طَالَ ذَلِكَ عَلَيَّ مِنْ جَفْوَةِ الْمُسْلِمِينَ مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّي وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ ، فَقُلْتُ لَهُ : يَا أَبَا قَتَادَةَ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَنَّ أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ؟ ، قَالَ : فَسَكَتَ فَعُدْتُ فَنَاشَدْتُهُ فَسَكَتَ فَعُدْتُ فَنَاشَدْتُهُ ، فَقَالَ : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، فَفَاضَتْ عَيْنَايَ وَتَوَلَّيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ ، فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي فِي سُوقِ الْمَدِينَةِ إِذَا نَبَطِيٌّ مِنْ نَبَطِ أَهْلِ الشَّامِ مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ يَبِيعُهُ بِالْمَدِينَةِ ، يَقُولُ : مَنْ يَدُلُّ عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ؟ ، قَالَ : فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيرُونَ لَهُ إِلَيَّ حَتَّى جَاءَنِي ، فَدَفَعَ إِلَيَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ ، وَكُنْتُ كَاتِبًا فَقَرَأْتُهُ ، فَإِذَا فِيهِ أَمَّا بَعْدُ : فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنَا أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ وَلَمْ يَجْعَلْكَ اللَّهُ بِدَارِ هَوَانٍ وَلَا مَضْيَعَةٍ ، فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ ، قَالَ : فَقُلْتُ : حِينَ قَرَأْتُهَا وَهَذِهِ أَيْضَا مِنَ الْبَلَاءِ ، فَتَيَامَمْتُ بِهَا التَّنُّورَ ، فَسَجَرْتُهَا بِهَا حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ مِنَ الْخَمْسِينَ وَاسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ ، قَالَ : فَقُلْتُ : أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ ؟ ، قَالَ : لَا بَلِ اعْتَزِلْهَا ، فَلَا تَقْرَبَنَّهَا ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَيَّ بِمِثْلِ ذَلِكَ ، قَالَ : فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي : الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِي هَذَا الْأَمْرِ ، قَالَ : فَجَاءَتْ امْرَأَةُ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ لَهُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ شَيْخٌ ضَائِعٌ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ ، فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ ؟ ، قَالَ : لَا ، وَلَكِنْ لَا يَقْرَبَنَّكِ ، فَقَالَتْ : إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا بِهِ حَرَكَةٌ إِلَى شَيْءٍ وَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَبْكِي مُنْذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا ، قَالَ : فَقَالَ لِي بَعْضُ أَهْلِي : لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَتِكَ ، فَقَدْ أَذِنَ لِامْرَأَةِ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ أَنْ تَخْدُمَهُ ، قَالَ : فَقُلْتُ : لَا أَسْتَأْذِنُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمَا يُدْرِينِي مَاذَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ فِيهَا وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ ، قَالَ : فَلَبِثْتُ بِذَلِكَ عَشْرَ لَيَالٍ ، فَكَمُلَ لَنَا خَمْسُونَ لَيْلَةً مِنْ حِينَ نُهِيَ عَنْ كَلَامِنَا ، قَالَ : ثُمَّ صَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ صَبَاحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الْحَالِ الَّتِي ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَّا قَدْ ضَاقَتْ عَلَيَّ نَفْسِي ، وَضَاقَتْ عَلَيَّ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ أَوْفَي عَلَى سَلْعٍ ، يَقُولُ بِأَعْلَى صَوْتِهِ : يَا كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ أَبْشِرْ ، قَالَ : فَخَرَرْتُ سَاجِدًا ، وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاءَ فَرَجٌ ، قَالَ : فَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلَاةَ الْفَجْرِ ، فَذَهَبَ النَّاسُ يُبَشِّرُونَنَا ، فَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَيَّ مُبَشِّرُونَ وَرَكَضَ رَجُلٌ إِلَيَّ فَرَسًا وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ قِبَلِي ، وَأَوْفَى الْجَبَلَ ، فَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ ، فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي ، فَنَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ فَكَسَوْتُهُمَا إِيَّاهُ بِبِشَارَتِهِ وَاللَّهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ ، وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ فَلَبِسْتُهُمَا ، فَانْطَلَقْتُ أَتَأَمَّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَلَقَّانِي النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يُهَنِّئُونِي بِالتَّوْبَةِ ، وَيَقُولُونَ : لِتَهْنِئْكَ تَوْبَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ حَتَّى دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَحَوْلَهُ النَّاسُ ، فَقَامَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّأَنِي ، وَاللَّهِ مَا قَامَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرُهُ ، قَالَ : فَكَانَ كَعْبٌ لَا يَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ ، قَالَ كَعْبٌ : فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : وَهُوَ يَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُورِ ، وَيَقُولُ : أَبْشِرْ بِخَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ ، قَالَ : فَقُلْتُ : أَمِنْ عِنْدِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ؟ ، فَقَالَ : لَا بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ كَأَنَّ وَجْهَهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ ، قَالَ : وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ ، قَالَ : فَلَمَّا جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ، قَالَ : فَقُلْتُ : فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ ، قَالَ : وَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ اللَّهَ إِنَّمَا أَنْجَانِي بِالصِّدْقِ ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا مَا بَقِيتُ ، قَالَ : فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَبْلَاهُ اللَّهُ فِي صِدْقِ الْحَدِيثِ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا ، أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلَانِي اللَّهُ بِهِ ، وَاللَّهِ مَا تَعَمَّدْتُ كَذِبَةً مُنْذُ قُلْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللَّهُ فِيمَا بَقِيَ ، قَالَ : فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ { 117 } وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ سورة التوبة آية 116-117 حَتَّى بَلَغَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 119 ، قَالَ كَعْبٌ : وَاللَّهِ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ نِعْمَةٍ قَطُّ بَعْدَ إِذْ هَدَانِي اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ ، أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُهُ ، فَأَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا ، إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِلَّذِينَ كَذَبُوا حِينَ أَنْزَلَ الْوَحْيَ شَرَّ مَا قَالَ لِأَحَدٍ : وَقَالَ اللَّهُ : سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ { 95 } يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ { 96 } سورة التوبة آية 95-96 ، قَالَ كَعْبٌ : كُنَّا خُلِّفْنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِكَ الَّذِينَ قَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَلَفُوا لَهُ ، فَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَأَرْجَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَنَا حَتَّى قَضَى فِيهِ ، فَبِذَلِكَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا سورة التوبة آية 118 وَلَيْسَ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مِمَّا خُلِّفْنَا تَخَلُّفَنَا عَنِ الْغَزْوِ ، وَإِنَّمَا هُوَ تَخْلِيفُهُ إِيَّانَا وَإِرْجَاؤُهُ أَمْرَنَا عَمَّنْ حَلَفَ لَهُ وَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ فَقَبِلَ مِنْهُ " ،

Your Comments/Thoughts ?

توبہ کا بیان سے مزید احادیث

حدیث نمبر 7019

‏‏‏‏ عبیداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے اور سب سے زیادہ ان کو حدیثیں یاد تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ان تینوں شخصوں میں سے تھے جن ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6958

‏‏‏‏ سماک سے روایت ہے، سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا تو کہا: البتہ اللہ کو اپنے بندہ کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جس کا توشہ اور توشہ دان ایک اونٹ پر ہو، پھر وہ چلے اور ایک ایسے میدان میں پہنچے جہاں کھانا اور پانی نہ ہو اور دوپہر کا وقت ہو جائے وہ اترے اور ایک درخت ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 7018

‏‏‏‏ ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر جب کسی جہاد پر جاتے تو اور جگہ جانا ظاہر کرتے (جو جھوٹ بھی نہ ہوتا اور مصلحت سے ایسا فرماتے) پر اس لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6989

‏‏‏‏ سیدنا ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ عزت اور بزرگی والا اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے رات کو تاکہ دن کا گنہگار توبہ کرے اور ہاتھ پھیلاتا ہے دن کو تاکہ رات کا گنہگار توبہ کرے یہاں تک کہ آفتاب نکلے پچھم سے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6980

‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، وہ جو مرنے لگا تو اپنے لوگوں سے بولا: مجھے جلا کر راکھ کر دینا، پھر آدھی راکھ جنگل میں اڑا دینا اور آدھی سمندر میں، کیونکہ اللہ کی ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6971

‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ مخلوقات کو بنا چکا تو اپنی کتاب میں لکھا اپنے اوپر، وہ کتاب اس کے پاس رکھی ہے کہ میری رحمت غالب ہو گی میرے غصہ پر۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6956

‏‏‏‏ اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔ البتہ اس میں یہ ہے کہ آدمی جنگل کی زمین میں ہو۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 7017

‏‏‏‏ زہری رحمہ اللہ سے بھی مذکورہ حدیث کی طرح روایت ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 7008

‏‏‏‏ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے ایک شخص تھا جس نے ننانوے خون کیے تھے، اس نے دریافت کیا کہ زمین کے لوگوں میں سب سے زیادہ عالم کون ہے؟ لوگوں نے ایک راہب کو بتایا (راہب نصاریٰ کے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 7023

‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص سے لوگ تہمت لگاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام ولد لونڈی کو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6962

‏‏‏‏ مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ باب: استغفار اور توبہ سے گناہوں کے ساقط ہونے کے بیان میںمکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6992

‏‏‏‏ مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 7014

‏‏‏‏ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ (سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) سے، انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6977

‏‏‏‏ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جس دن آسمان اور زمین بنائے اس دن سو رحمتیں پیدا کیں۔ ہر ایک رحمت اتنی بڑی ہے جتنا فاصلہ آسمان اور زمین میں ہے تو ان میں سے ایک رحمت زمین میں کی جس کی وجہ سے ماں ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6967

‏‏‏‏ سیدنا حنطلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کی اور دوزخ کا ذکر کیا پھر میں گھر میں آیا اور بچوں سے ہنسا اور بیوی سے کھیلا۔ پھر میں نکلا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے، میں نے ان سے بیان کیا: ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6999

‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن غیرت کرتا ہے مومن کے لیے اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ غیرت ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6970

‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری رحمت میرے غصہ سے آگے بڑھ گئی ہے۔ (یعنی رحمت زیادہ ہے)۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6981

‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے گناہ کیے تھے جب مرنے لگا تو اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ مرنے کے بعد مجھ کو جلانا، پھر میری راکھ باریک پیسنا، پھر دریا میں، ہوا میں اڑا دینا کیونکہ اللہ کی قسم! اگر پروردگار نے تنگ پکرا مجھ کو تو ایسا عذاب کرے گا کہ ویسا عذاب کسی کو نہ کیا ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 7001

‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت سے، ایک شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تب یہ آیت اتری «(أَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 6961

‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: البتہ اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے اپنے بندہ کی توبہ سے بہ نسبت اس شخص کے تم میں سے جو جاگتے ہی اپنا اونٹ دیکھے جو گم ہو گیا ہو ایک خشک جنگل میں۔مکمل حدیث پڑھیئے