یادوں کے نشیمن کو جلایا تو نہیں ہے

یادوں کے نشیمن کو جلایا تو نہیں ہے

ہم نے تجھے اس دل سے بھلایا تو نہیں ہے

کونین کی وسعت بھی سمٹ جاتی ہے جس میں

اے دل کہیں تجھ میں وہ سمایا تو نہیں ہے

ہر شے سے وہ ظاہر ہے یہ احسان ہے اس کا

خود کو مری نظروں سے چھپایا تو نہیں ہے

زلفوں کی سیاہی میں عجب حسن نہاں ہے

یہ رات اسی حسن کا سایا تو نہیں ہے

واقف ہیں ترے درد سے اے نغمۂ الفت

ہم نے تجھے ہر ساز پہ گایا تو نہیں ہے

اس نے جو لکھا تھا کبھی ساحل کی جبیں پر

اس نام کو موجوں نے مٹایا تو نہیں ہے

وہ شہر کی اس بھیڑ میں آتا نہیں افضلؔ

پھر بھی چلو دیکھیں کہیں آیا تو نہیں ہے

(708) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Yaadon Ke Nasheman Ko Jalaya To Nahin Hai In Urdu By Famous Poet Afzal Allahabadi. Yaadon Ke Nasheman Ko Jalaya To Nahin Hai is written by Afzal Allahabadi. Enjoy reading Yaadon Ke Nasheman Ko Jalaya To Nahin Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Afzal Allahabadi. Free Dowlonad Yaadon Ke Nasheman Ko Jalaya To Nahin Hai by Afzal Allahabadi in PDF.