حویلی موت کی دہلیز پر

حویلی موت کی دہلیز پر کب سے کھڑی ہے

چاند نے بجھ کر

ستاروں نے اداسی اوڑھ کر

پھولوں نے خوشبو کا لبادہ پھینک کر

ماحول پس از مرگ کا تیار کر ڈالا ہے

بس اک آخری ہچکی کے سب ہیں منتظر

سارے اعزا و اقارب نوحہ خوانی کے لیے

تیار بیٹھے ہیں

حویلی موت کی دہلیز پر کب سے کھڑی ہے

اس کے مرنے میں اگر کچھ دیر باقی ہے

تو چل کر دوسرے کچھ کام کر ڈالیں

صدی کا دوسرا عشرہ

نئے آغاز کے پل پر کھڑا ہو کر

سمندر کی بپھرتی موج کو للکارتا ہے

وقت کے غواص

سیپوں میں گہر کھنگالتے ہیں

ابن آدم کے قبیلے

روح مشرق کی پرانی گھاٹیوں سے

اک اک کر کے نکلتے ہیں

بخارا و سمرقند ازبکستان و ہرات

سب پہ چھائی ہے اندھیری سخت رات

لکھنؤ اور اکبرآباد اپنی شوکت کھو رہے ہیں

مرحبا شام غریباں

اب تو چل کر دوسرے کچھ کام کر ڈالیں

حویلی موت کی دہلیز پر کب سے کھڑی ہے

(772) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Haweli Maut Ki Dahliz Par In Urdu By Famous Poet Ain Tabish. Haweli Maut Ki Dahliz Par is written by Ain Tabish. Enjoy reading Haweli Maut Ki Dahliz Par Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ain Tabish. Free Dowlonad Haweli Maut Ki Dahliz Par by Ain Tabish in PDF.