باز گشت

میں تیری بستی سے بھاگ کر دور اک خرابے میں آ گیا ہوں

یہ وہ خرابہ ہے جس میں ہستی کی روشنی کا گزر نہیں ہے

یہاں نہ تو ہے نہ رنگ و بو ہے نہ زندگی ہے

یہاں ہے وہ عالم خموشی کہ دل کی دھڑکن بھی بے صدا ہے

کہ میری تنہائیوں کے دامن‌ افق کے دامن سے جا ملے ہیں

ترے نگر کے حسین کوچے شفیق گلیاں جو زیست کی روشنی کا گھر ہیں

مرے لیے میری بے بسی نے انہیں شب آلود کر دیا ہے

وہ رہ گزر تیرے نقش پا پر جہاں ہزار آستاں بنے ہیں

وہ رہ گزر اجنبی ہوئے ہیں

جہاں میں اب ہوں وہاں اگرچہ ہے بے کراں تیرگی فضا میں

مگر یہاں بھی مرے خیالوں میں مہر بن کر ترا سراپا دمک رہا ہے

ہوا کے بے کیف سرد جھونکے جو زرد پتوں سے کھیلتے ہیں

تو میری بے آب خشک آنکھیں تجھے خلاؤں میں ڈھونڈھتی ہیں

مرا تخیل کہ اس خرابے سے بد گماں ہے

مرے جنوں کو جھنجھوڑتا ہے تو سوچتا ہوں

اگرچہ تو ایک وہ حقیقت ہے جس کا اقرار لا‌‌ بدی ہے

مگر یہ تیرا وجود میرے لیے فقط ایک واہمہ ہے

کہ تیری زلفوں کو میرے شانوں نے اپنی دنیا سے دور پایا

کہ میرے اشکوں کو تیرے دامن کی آرزو ہی رہی ہمیشہ

مگر یہ خوش تھا

کہ میرے غم نے ترے تخیل میں وہ ستارے سے بھر دئے تھے

چراغ جن کے نہ بجھ سکے ہیں نہ بجھ سکیں گے

یہ سب تھا لیکن جنوں پہ کچھ ایسی قدغنیں تھیں

کہ جذب دل حرف مدعا کو نہ پا سکا تھا

کبھی کوئی درد لفظ بن کر مری زباں پر نہ آ سکا تھا

مگر نہ جانے وہ کیا تھا جس نے دلوں کے پردے اٹھا دئے تھے

جنوں کے اسرار واقعے تھے

تہی‌‌ زباں ہم ہوئے تھے لیکن زباں کے محتاج کب رہے تھے

کہ ہم نگاہوں سے دل کے پیغام بھیجتے تھے

یہ سب تھا لیکن میں کرب جاں‌ سوز کا امیں تھا

وہ کرب جاں سوز تھا کہ میری حیات سے نیند بد گماں تھی

اور اس خرابے میں جس میں ہستی کی روشنی کا گزر نہیں ہے

جہاں نہ تو ہے نہ رنگ و بو ہے نہ زندگی ہے

مرا گماں تھا یہاں تجھے خود سے دور پا کر میں کرب سے جاں بچا سکوں گا

تجھے کبھی تو دماغ و دل سے ہٹا سکوں گا

تجھے کبھی تو بھلا سکوں گا

مگر یہ اک اور واہمہ تھا

قیامتیں سوز درد دل میں نہاں وہی ہیں

عبث غم زندگی سے میں نے فرار چاہا

اسی طرح کرب جاں گزا سے میں اب بھی آتش بجا ہوں ہر دم

کہ اب ترا شہر چھوڑنے کا اک اور غم ہے

اگرچہ تیرا وجود میرے لیے فقط ایک واہمہ تھا

اگرچہ تیرا وجود میرے لیے فقط ایک واہمہ ہے

مگر ترا پیکر مثالی مرے خیالوں میں جاگزیں ہے

کہ وہ کسی دل کشا حقیقت کا بھی امیں ہے

اور اس سے مجھ کو مفر نہیں ہے

میں سوچتا ہوں کہ اس خرابے سے لوٹ جاؤں

جہاں نہ تو ہے نہ رنگ و بو ہے نہ زندگی ہے

جہاں مجھے آج یہ بھی غم ہے

کہ میں نے شہر حبیب چھوڑا

وفا سے میں نے وفا نہیں کی

میں سوچتا ہوں کہ اس خرابے سے لوٹ جاؤں

وہیں جہاں میں نے زندگی کا سکون ڈھونڈا

مگر نہ پایا

وہیں جہاں میں نے روشنی کے سراب دیکھے

حقیقتوں پر نقاب دیکھے

وہیں جہاں میں نے راحتوں کے حباب دیکھے

وہیں ملے گا سکوں اگر مجھ کو زندگی میں کہیں ملے گا

مگر یہ اک خوف میرا دامن اسی خرابے سے باندھتا ہے

کہ اس جگہ پھر اگر جنوں نے سکوں نہ پایا تو کیا کروں گا

(2870) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Baz-gasht In Urdu By Famous Poet Arsh Siddiqui. Baz-gasht is written by Arsh Siddiqui. Enjoy reading Baz-gasht Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Arsh Siddiqui. Free Dowlonad Baz-gasht by Arsh Siddiqui in PDF.