کاواک

سب آنکھیں ٹانگوں میں جڑی ہیں

ریڑھ کی ہڈی کے منکوں میں کان لگے ہیں

ناف کے اوپر روئیں روئیں میں ایک زباں ہے

پتلونیں ساری آوازیں سن لیتی ہیں

دو پتلونیں جھگڑ رہی ہیں

''اتنی قیمت کیوں لیتی ہو تم میں ایسی کیا خوبی ہے''

کیسے گاہک ہو تم آخر مول بدن کا دے سکتے ہو

پتی ورتا کا مول تمہارے پاس نہیں ہے

چست نکیلا بریزیر یہ چیخ رہا ہے

شرم نہیں آتی کتوں کو چرچ کے آگے کھڑے ہوئے ہیں

رستم ٹھرہ پئے کھڑا ہے بس اسٹاپ کی چھت کے نیچے

اور سہراب سے پوچھ رہا ہے

''بیٹا مال کہاں ملتا ہے؟''

مندر کی چوکھٹ پر بیٹھی اندھی آنکھیں

آتے جاتے اوتاروں کی خفیہ جیبیں تاک رہی ہیں

ہسپتال کے اونچے نیچے زینوں پر اک اک مردے کو

گاندھی جی دونوں ہاتھوں سے انجکشن دیتے پھرتے ہیں

واشنگٹن وتنام میں بیٹھا برہم پتر کے پانی کو وہسکی کے جام میں گھول رہا ہے

لندن لنکا کی سڑکوں پہ سر نیوڑھائے گھوم رہا ہے

کانگوں آوارہ پھرتا ہے پیرس کے گندے چکلوں میں

بدھ کے ٹوٹے پھوٹے بت کے سر پر بوڑھا کرگس

مردوں کی مجلس میں بیٹھا اپنی بپتا سنا رہا ہے

مسجد کے سائے میں بیٹھا کمسن گیدڑ

اس کی گواہی میں کہتا ہے

بیچارہ کم سن ہے اس کی چونچ سے اب تک

دودھ کی خوشبو سی آتی ہے''

اوپر نیلے کھلے گگن میں

ایک کبوتر اپنی چونچ میں اک زیتون کی شاخ لیے اڑتا پھرتا ہے

اور اس شاخ کے دونوں جانب

ایٹم بم کے پات لگے ہیں

انساں کا دایاں بازو اک برگ خزاں کی طرح لرز کر ٹوٹ رہا ہے

اور اس کے بائیں بازو پر کوہ ہمالیہ دھرا ہوا ہے

جانے پھر بھی وہ تلوار کی دھار پہ کیسے چل سکتا ہے

میں اس بھیڑ میں چوراہے پر تنہا بیٹھا سوچ رہا ہوں

دنیا اسرافیل کے پہلے صور کے بعد یوں ہی لگتی ہے

''گیس کے کمرے ''میں شاید یوں ہی ہوتا ہے

پوپ پال کی ٹوپی میرے بھیجے میں دھنستی جاتی ہے

(1145) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Kawak In Urdu By Famous Poet Aziz Qaisi. Kawak is written by Aziz Qaisi. Enjoy reading Kawak Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Aziz Qaisi. Free Dowlonad Kawak by Aziz Qaisi in PDF.