لندن میں جشن غالب

لندن میں جشن حضرت غالبؔ کی رات تھی

تاریخ شاعری میں یہ اک واردات تھی

اس جشن میں شریک تھے ہر ملک کے وفود

حل ہو گیا تھا مسئلہ وحدت الوجود

جنت سے میرزا کو جو کنکارڈ لے چلا

پر ہو گیا سفر سے جو تھا راہ میں خلا

مرزا کے پاس باکس میں تمباکو تھی فقط

کسٹم کے افسروں نے اسے سمجھا ہی غلط

افسر نے پاسپورٹ جو ان سے طلب کیا

کہنے لگے کہ آپ نے یہ کیا غضب کیا

سچ بات تو یہی ہے وہ اب نیک ہو کہ بد

ملکوں کی سرحدوں کو نہیں مانتے اسدؔ

تاریخ کی ہے فکر نہ جغرافیے کی ہے

شاعر ہوں میں تلاش مجھے قافیے کی ہے

عام آدمی کی طرح مرا پاسپورٹ کیوں

''میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں''

میں کب یہاں مکان بنانے کو آیا ہوں

لندن میں اپنا جشن منانے کو آیا ہوں

انگریز کے قصیدے جو لکھے تھے یاد ہیں

نظمیں کچھ اور بھی ہیں جو محتاج داد ہیں

مجھ کو نمود و نام کی پروا نہیں مگر

بلوایا بی بی سی نے تو پہنچوں گا وقت پر

غالبؔ جو ریسٹوران میں پہنچے بہ وقت شام

بیرے سے یہ کہا کہ کرو میرا انتظام

منگواؤ وہ جو آتش سیال پاس ہے

''اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے''

اسٹیج پر جو ہو گئے اب جلوہ گر اسد

استاد ذوقؔ جلنے لگے ازرہ حسد

ناظم مشاعرے کا یہ بولا کہ حاضرین

غالبؔ کو دیکھنے کو نہ آئیں تماش بین

غالبؔ کی شخصیت میں محاسن ہیں بے شمار

یہ آدمی ولی تھا نہ ہوتا جو بادہ خوار

یہ شخص جس کو وقت نے بوڑھا بنایا ہے

ہم نے اسے برات کا دولہا بنایا ہے

بیوی سے بات کیجے نہ سالی سے پوچھئے

غالبؔ کا کیا مقام ہے حالی سے پوچھئے

صحت سے کم نہیں ہے اسے بہرا پن کا روگ

بہرا جو اس کو کہتے ہیں بے بہرہ ہیں وہ لوگ

بے تیغ کیوں لڑے گا یہ شاعر جو ہے جری

سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری

یہ چاہتا ہے گھر میں تری جلوہ گاہ ہو

''دیکھو اسے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو''

تہذیب و فن کو رنگ مغل اس نے دے دیا

اردو کو ایک تاج محل اس نے دے دیا

اس نے زبان میرؔ کو ہندی کا رس دیا

اردو غزل کو اس نے نیا کینوس دیا

غالبؔ جو اپنے جشن میں بیٹھے ہیں شان سے

ان کا کلام سنئے اب ان کی زبان سے

غالبؔ نے تیس غزلیں سنائیں جو صبح تک

ہر شعر نوٹ کرتا رہا منشئ فلک

تقریب جب یہ ختم ہوئی صبح کے قریب

اسٹیج کو جو دیکھا تو غائب تھے سب ادیب

جلسہ میں مہتمم کا بھی کوئی پتہ نہ تھا

دریاں تھیں گاؤ تکیے تھے اور شامیانہ تھا

کیا پوچھتے ہو حال جو غالبؔ کا آج تھا

پاکٹ میں ایک پیسہ نہ تھا سر پہ تاج تھا

(2396) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

London Mein Jashn-e-ghaalib In Urdu By Famous Poet Dilawar Figar. London Mein Jashn-e-ghaalib is written by Dilawar Figar. Enjoy reading London Mein Jashn-e-ghaalib Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Dilawar Figar. Free Dowlonad London Mein Jashn-e-ghaalib by Dilawar Figar in PDF.