لہو نے کیا ترے خنجر کو دل کشی دی ہے

لہو نے کیا ترے خنجر کو دل کشی دی ہے

کہ ہم نے زخم بھی کھائے ہیں داد بھی دی ہے

لباس چھین لیا ہے برہنگی دی ہے

مگر مذاق تو دیکھو کہ آنکھ بھی دی ہے

ہماری بات پہ کس کو یقین آئے گا

خزاں میں ہم نے بشارت بہار کی دی ہے

دھرا ہی کیا تھا ترے شہر بے ضمیر کے پاس

مرے شعور نے خیرات آگہی دی ہے

حیات تجھ کو خدا اور سر بلند کرے

تری بقا کے لیے ہم نے زندگی دی ہے

کہاں تھی پہلے یہ بازار سنگ کی رونق

سر شکستہ نے کیسی ہماہمی دی ہے

چراغ ہوں مری کرنوں کا قرض ہے سب پر

بقدر ظرف نظر سب کو روشنی دی ہے

چلی نہ پھر کسی مظلوم کے گلے پہ چھری

ہماری موت نے کتنوں کو زندگی دی ہے

ترے نصاب میں داخل تھی آستاں بوسی

مرے ضمیر نے تعلیم سرکشی دی ہے

کٹے گی عمر سفر جادہ آفرینی میں

تری تلاش نے توفیق گمرہی دی ہے

ہزار دیدہ تصور ہزار رنگ نظر

ہوس نے حسن کو بسیار چہرگی دی ہے

(1049) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Lahu Ne Kya Tere KHanjar Ko Dilkashi Di Hai In Urdu By Famous Poet Ezaz Afzal. Lahu Ne Kya Tere KHanjar Ko Dilkashi Di Hai is written by Ezaz Afzal. Enjoy reading Lahu Ne Kya Tere KHanjar Ko Dilkashi Di Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ezaz Afzal. Free Dowlonad Lahu Ne Kya Tere KHanjar Ko Dilkashi Di Hai by Ezaz Afzal in PDF.