ہمالہ کی داسیاں

ہمالہ کے نوکیلے بدن سے پھسلتی ہوئی چنچل بوندیں

اس کے قدموں پہ جا گریں

وہ ہمالہ کے پیروں کو چومتی رہیں اور المیہ گیت گاتی رہیں

میرے محبوب ہم کہ بس تیری داسیاں بن کر

ترے قدموں کو ہمیشہ چومتے رہنا چاہتی ہیں،

یہ ڈھلوان ہمیں جنوب کی اور جتنا بھی آگے بہا لے جائے

لیکن ایک دن

ہم سمندر سے اٹھنے والی ہواؤں کی رتھ پر سوار ہو کر

پھر سے تیری جانب لوٹ آئیں گے

یہ گیت دہراتے ہوئے

تمام داسیاں اپنے محبوب کو آخری بوسہ دے کر

ایک لمبے سفر کے لئے نکل جاتیں ہیں

جھرنا،

ندی،

دریا،

سمندر۔۔۔

ہمالہ کی ہیبت سے برف ہو جانے والا سورج

جب ہمالہ سے لپٹی سرد ہواؤں سے نہ جیت سکا

تو

اپنی ہار کا بدلہ لینے

ہمالہ کی داسیوں کے تعاقب میں نکل پڑتا ہے

جوں جوں داسیاں ہمالہ سے دور ہوتی جا رہی ہیں

اس (سورج) کا قہر آگ بن کر ان (داسیوں) پر برستا چلا جاتا

وہ ایک ایک کر کے تمام داسیوں کو نگلنا چاہتا ہے

اور وہ ایسا ہی کرتا ہے اور کرتا ہی چلا جاتا ہے

یہاں تک کہ

ہر داسی کے گیلے بدن سے اس کی روح بھاپ بن کر اڑ جاتی

لا زوال قربانی خدا قبول کرتا ہے

موت اندھی ہو جاتی ہے۔۔۔۔

اور زندگی پانی بن کر ان (داسیوں) کی رگوں میں دوڑنے لگتی ہے

جنوب سے اٹھنے والی ہوا

ان داسیوں کی پاک روحوں کو

اپنے کاندھے پر لادے شمال کی جانب واپسی کا سفر کرتیں ہیں

دن

ہفتے

مہینے۔۔۔۔

داسیوں کو اپنا دیوتا پھر نظر آنے لگا

وہ ہوا کو کچھ اور تیز چلنے کو کہتی

وہ سب بے چین ہیں

بے قرار ہیں

وہ اپنے نرم ہونٹوں سے

ہمالہ کے خاکستری لبوں کو چومنا چاہتی تھیں

وہ اپنے محبوب کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ

تیری محبت میں موت نے ہم سے ہمارا بدن چھین لیا ہے

ہر بدلی کے دل میں یہ خواہش تھی

کہ ہمالہ انہیں اپنی بانہوں میں سمیٹے

اور

ہمیشہ سے سر اٹھائے کھڑے رہنے والے ہمالہ کی

چوڑی چھاتی سے ٹکرا کر برس جانا

ہر بدلی کا خواب ہے،

داسیاں ہوا سے کچھ اور تیز چلنے پر اصرار کرتیں ہیں

لیکن اب ہوا کو یہ سب دیکھنا برداشت نہیں

وہ،

ان بدلیوں سے چلا چلا کر کہتی۔۔۔۔۔۔

اے بدلیو

تم سب احسان فراموش ہو

کہ جب تمہیں سورج نے جلا کر بھاپ بنا دیا

تو تمہاری سوکھی لاشوں کو میں نے کاندھا دیا

وہ میں ہی تھی کہ جس نے تمہیں اپنی آغوش میں بھرا

اور آسمان تک لے آئی

لیکن آج تم اس ہمالہ پر

پھر سے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو!

تم آج پھر اس ہمالہ سے ٹکرا کر برسنا چاہتی ہو۔۔۔۔

تف ہے تمہاری دیوانگی پر!

ہوا طیش میں آ کر کچھ اور تیز چلنے لگتی

وہ ایک ایک کر کے ہر بدلی کو ہمالہ کی چوڑی چھاتی سے ٹکرا دیتی

اور بدلی اپنے محبوب کا لمس محسوس کرتے ہی

ایک بار پھر بوندوں میں بکھر جاتی ہے

اور ہمالہ کے قدموں پہ گرتی ہر بوند

دوبارہ وہی پرانا گیت دہراتی ہیں۔۔۔۔

اے میرے محبوب ہم کہ بس تیری داسیاں بن کر

ترے قدموں کو ہمیشہ چومتے رہنا چاہتی ہیں،

یہ ڈھلوان ہمیں جنوب کی اور جتنا بھی آگے بہا لے جائے

لیکن ایک دن

ہم سمندر سے اٹھنے والی ہواؤں کی رتھ پر سوار ہو کر

پھر سے تیری جانب لوٹ آئیں گے

(1003) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Himala Ki Dasiyan In Urdu By Famous Poet Faisal Saeed Faisal. Himala Ki Dasiyan is written by Faisal Saeed Faisal. Enjoy reading Himala Ki Dasiyan Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Faisal Saeed Faisal. Free Dowlonad Himala Ki Dasiyan by Faisal Saeed Faisal in PDF.