علی محسن ایم بی اے، خالد بن ولید روڈ

علی محسن کے ماموں لٹ کے انبالہ سے جب لاہور آئے تھے

کلام پاک علم اور سجدہ گاہیں ساتھ لائے تھے

چنانچہ ان کے گھر میں مستقل دلدل بھی پلتا تھا

ہمیشہ نو محرم کو علم گھر سے نکلتا تھا

ہر عاشورے علی محسن بڑے ماموں کے گھر لاہور ہوتا تھا

وہیں دو چار دن رک کر کراچی جب وہ آتا تھا

تو بیڈن روڈ کے امرتسری حلوائی سے امی اور ابا کے لیے

لڈو بھی لاتا تھا

علی محسن کے ابا جی بڑے ہی پاک طینت تھے

مگر ان کے پکھوڑوں اور کمر پر مستقل خارش سی رہتی تھی

علی محسن کی امی کینہ پرور تھیں

مگر بیٹا تو بیٹا تھا

سو کہتی تھیں بہو جب گھر میں لاؤں گی

پھٹیں گی تب تری آنکھیں

چڑھاوا جب چڑھاؤں گی

وہ اس پر کچھ نہ کہتا تھا

وہ ان دونوں سے ویسے بات یوں بھی

کم ہی کرتا تھا

وہ امی اور ماموں کے لیے لاہور تو جاتا

مگر دیں دار لوگوں سے

اسے رغبت نہ ہوتی تھی

اور ان سے بحث کرنے کی

کبھی ہمت نہ ہوتی تھی

علی محسن کے تینوں یار عمر، پرکاش اور صفدرؔ

بڑے ہی بد عقیدہ تھے

وہ چاروں ساتھ جب پرکاش کے اس فلیٹ میں ہوتے

کلفٹن میں جہاں وہ شیام، رابرٹ اور نظر کے ساتھ رہتا تھا

بڑے ہی کیف میں ہوتے

وہ سارے مل کے جب پھر بیچ بروری کی چنیدہ لیموں والی ووڈکا

کے جام بھرتے تھے

تو اپنی شام کو خوش گپیوں بد فعلیوں کے نام کرتے تھے

عمر، پرکاش ،صفدر اور علی محسن کا دفتر ایک ہی تھا

اس لیے وہ پیتے پیتے مائرہ کو یاد کرتے تھے

کئی سالوں سے وہ بھی ساتھ تھی ان کے

وہ ہفتے بھر میں ہر دن اک نئی خوشبو لگاتی تھی

بڑے دانتوں جھکے کاندھوں کی لڑکی

جس کی سب باتیں نرالی تھیں

اور آنکھیں کتنی کالی تھیں

علی محسن کی آنکھیں تو نہیں باتیں نہایت خوب صورت تھیں

وہ یاروں کو بتاتا تھا

کہ وہ دفتر میں آئی سب نئی انٹرنز کے چکر میں رہتا ہے

جو تھوڑے دن کو آتی تھیں

قمیصیں جن کی اونچی تھیں

یا جن کے چاک نیچے تھے

جو بچھوے اور پازیبیں پہنتی تھیں

جو خوش ہوں یا نہ ہوں

خوش حال لگتی تھیں

وہ باتوں کی انی سے جب کسی انٹرن کے دل میں

بہت سے نت نئے اور پر مسرت خواب بوتا تھا

اسے خود بھی ذرا دھیما سا اور مغلوب سا اک عشق ہوتا تھا

وہ اپنے کام میں بھی مستعد تھا

کمپنی نے اس کو گاڑی دی تھی جس میں ڈیک لگا تھا

اور کسی انٹرن کو لے کر وہ اس پر گھومتا رہتا

پٹھانے خان کو سنتا مسلسل جھومتا رہتا

علی محسن پولس کے روکنے کے وقت سے پہلے

کڑاہی کھا کے اور یاروں سے رخصت لے کے اپنے گھر پہنچتا تھا

پہنچتے ہی وہ ٹی وی پر کسی چینل سے آتی

انڈین پکچر لگاتا تھا

مگر پھر بھول کر سب

مائرہ کی خوشبوؤں میں ڈوب جاتا تھا

(1076) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Ali-mohsin MBA, Khaalid-bin-walid Road In Urdu By Famous Poet Haris Khaleeq. Ali-mohsin MBA, Khaalid-bin-walid Road is written by Haris Khaleeq. Enjoy reading Ali-mohsin MBA, Khaalid-bin-walid Road Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Haris Khaleeq. Free Dowlonad Ali-mohsin MBA, Khaalid-bin-walid Road by Haris Khaleeq in PDF.