جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے

جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے

کب کوئی لڑکی من کا دریچہ کھول کے باہر جھانکی ہے

آج مگر اک نار کو دیکھا جانے یہ نار کہاں کی ہے

مصر کی مورت چین کی گڑیا دیوی ہندوستاں کی ہے

مکھ پر روپ سے دھوپ کا عالم بال اندھیری شب کی مثال

آنکھ نشیلی بات رسیلی چال بلا کی بانکی ہے

انشاؔ جی اسے روک کے پوچھیں تم کو تو مفت ملا ہے حسن

کس لیے پھر بازار وفا میں تم نے یہ جنس گراں کی ہے

ایک ذرا سا گوشہ دے دو اپنے پاس جہاں سے دور

اس بستی میں ہم لوگوں کو حاجت ایک مکاں کی ہے

اہل خرد تادیب کی خاطر پاتھر لے لے آ پہنچے

جب کبھی ہم نے شہر غزل میں دل کی بات بیاں کی ہے

ملکوں ملکوں شہروں شہروں جوگی بن کر گھوما کون

قریہ بہ قریہ صحرا بہ صحرا خاک یہ کس نے پھانکی ہے

ہم سے جس کے طور ہوں بابا دیکھو گے دو ایک ہی اور

کہنے کو تو شہر کراچی بستی دل زدگاں کی ہے

(1162) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Jalwa-numai Be-parwai Han Yahi Rit Jahan Ki Hai In Urdu By Famous Poet Ibn E Insha. Jalwa-numai Be-parwai Han Yahi Rit Jahan Ki Hai is written by Ibn E Insha. Enjoy reading Jalwa-numai Be-parwai Han Yahi Rit Jahan Ki Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ibn E Insha. Free Dowlonad Jalwa-numai Be-parwai Han Yahi Rit Jahan Ki Hai by Ibn E Insha in PDF.