سڑک

سڑک مسافت کی عجلتوں میں

گھرے ہوئے سب مسافروں کو

بہ‌ غور فرصت سے دیکھتی ہے

کسی کے چہرے پہ سرخ وحشت چمک رہی ہے

کسی کے چہرے سے زرد حیرت چھلک رہی ہے

کسی کی آنکھیں ہری بھری ہیں

کبیر حد سے ابھر رہا ہے

صغیر قد سے گزر رہا ہے

کسی کا ٹائر کسی کے پہیے کو کھا رہا ہے

کسی کا جوتا کسی کی چپل چبا رہا ہے

کسی کے پیروں میں آ رہا ہے کسی کا بچہ

کسی کا بچہ کسی کے شانے پہ جا رہا ہے

کوئی ٹھکانے پہ کوئی کھانے پہ جا رہا ہے

حبیب دست رقیب تھامے

غریب خانے پہ جا رہا ہے

امیر پنجرہ بنا رہا ہے

غلام کرتب دکھا رہا ہے

اور اپنے بیٹے کے ساتھ چھت پر

امین کنڈا لگا رہا ہے

نظام ٹانگہ چلا رہا ہے

کسی کلائی پہ جگمگاتی ہوئی گھڑی ہے

مگر ابھی وہ رکی ہوئی ہے

کسی کے چہرے پہ بارہ بجنے میں پانچ سیکنڈ رہ گئے ہیں

کسی کی ہاتھی نما پراڈو

سڑک سے ایسے گزر رہی ہے

سوائے اس کے کہیں بھی جیسے کوئی نہیں ہو

کسی کی مونچھیں جھکی ہوئی ہیں

کسی کی بانچھیں کھلی ہوئی ہیں

کسی کی ٹیکسی کسی کی فوکسی ملی ہوئی ہیں

کسی کے لب اور کسی کی آنکھیں سلی ہوئی ہیں

کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں

کسی کی پگڑی چمک رہی ہے

کسی کی رنگت کسی کی ٹوپی اڑی ہوئی ہے

شریف نظریں اٹھا اٹھا کر

کمان جسموں پہ اپنی وحشت کے تیر کب سے چلا رہا ہے

نظیر نظریں چرا رہا ہے

نفیس اپنے کلف کی شکنوں کو رو رہا ہے

حکیم اپنے مطب کے شیشوں کو دھو رہا ہے

کسی کی آنکھوں کے دھندلے شیشوں میں اس کے ماضی کی جھلکیاں ہیں

کسی کی آنکھوں میں آنے والے حسین لمحوں کی مستیاں ہیں

کسی کی آنکھوں میں رت جگوں کی کچھ ارغوانی سی ڈوریاں ہیں

کسی کے کاندھے پہ اس کے خوابوں کی بوریاں ہیں

کباڑ خانے پہ باسی ٹکڑوں کی اور کتابوں کی بوریاں ہیں

بزرگ برگد کے نیچے بوڑھا کھڑا ہوا ہے

اور اس کے ہاتھوں میں ٹیپ لپٹی ہوئی چھڑی ہے

پولیس کی گاڑی پکٹ لگا کر

سڑک پہ ترچھی کھڑی ہوئی ہے

اور ایک مزدور اپنا دامن اٹھائے بے بس کھڑا ہوا ہے

اور اک سپاہی کہ اس کے نیفے میں انگلیوں کو گھما رہا ہے

وہیں پہ شاہد سیاہ چشمہ لگا کے خود کو چھپا رہا ہے

نیوز چینل کی چھوٹی گاڑی بڑی خبر کی تلاش میں ہے

دو سبزی والے بھی اپنی پھیری لگا رہے ہیں

تو پھول والے کے سر پہ پھولوں کی ٹوکری ہے

کسی کی آنکھوں میں نوکری ہے

کسی کی آنکھوں میں چھوکری ہے

وقار سر کو جھکا رہا ہے

فراز کھائی میں جا رہا ہے

تو گیلی سگریٹ کے کش لگا کر

نواب رکشا چلا رہا ہے

سلیم کنی گھما رہا ہے

وکیل وردی میں جا رہا ہے

ضمیر بغلیں بجا رہا ہے

اور ایک واعظ بتا رہا ہے

خدا کو ناراض کرنے والے جہنمی ہیں

خدا کو راضی کرو خدارا

خدا کو راضی کرو خدارا

اور اس کے آگے نصیر اکمل کمال شاداب غلام سارے

نظر جھکائے کھڑے ہوئے ہیں

کہ چشم بینا اگر کہیں ہے

تو سمجھو پاتال تک گڑھی ہے

کسی کو اے سی خریدنا ہے

کسی کو پی سی خریدنا ہے

کسی کی بس اور کسی کی بی سی نکل رہی ہے

عقیلہ خالہ کے دونوں ہاتھوں میں آٹھ تھیلے لٹک رہے ہیں

اور آتے جاتے سبھی مسافر

انہیں مسلسل کھٹک رہے ہیں

ضیا اندھیرے میں جا رہا ہے

گلاب کچرا جلا رہا ہے

عظیم مکھی اڑا رہا ہے

کلیم گٹکا چبا رہا ہے

تو گھنٹہ پیکج پہ جانے کب سے

فہیم گپیں لڑا رہا ہے

سبق مساوات کا سکھانے

وزیر گاڑی میں جا رہا ہے

ثنا ندا کو نئے لطیفے سنا رہی ہے

حنا ہتھیلی کو تکتے تکتے پرانے رستے سے آ رہی ہے

اور اپنی بھاوج کا ہاتھ تھامے

زبیدہ چیک اپ کو جا رہی ہے

وہ اپنی نظریں کبھی ادھر کو کبھی ادھر کو گھما رہی ہے

مگر کوئی شے اسے مسلسل بلا رہی رہی ہے

عجیب عجلت عجیب وحشت عجیب غفلت کا ماجرا ہے

کہوں میں کس سے مرے خدایا یہ کیسی خلقت کا ماجرا ہے

کہ اپنی مستی میں مست ہو کر

یہ سب مسافر گزر رہے

نئے مسافر ابھر رہے ہیں

سڑک جہاں تھی وہیں کھڑی ہے

مگر حقیقت بہت بڑی ہے

سڑک پہ بلی مری پڑی ہے

(1497) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

SaDak In Urdu By Famous Poet Imran Shamshad. SaDak is written by Imran Shamshad. Enjoy reading SaDak Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Imran Shamshad. Free Dowlonad SaDak by Imran Shamshad in PDF.