رخ روشن کا روشن ایک پہلو بھی نہیں نکلا

رخ روشن کا روشن ایک پہلو بھی نہیں نکلا

جسے میں چاند سمجھا تھا وہ جگنو بھی نہیں نکلا

وہ تیرا دوست جو پھولوں کو پتھرانے کا عادی تھا

کچھ اس سے شعبدہ بازی میں کم تو بھی نہیں نکلا

ابھی کس منہ سے میں دعویٰ کروں شاداب ہونے کا

ابھی ترشے ہوئے شانے پہ بازو بھی نہیں نکلا

گھروں سے کس لیے یہ بھیڑ سڑکوں پر نکل آئی

ابھی تو بانٹنے وہ شخص خوشبو بھی نہیں نکلا

شکاری آئے تھے دل میں شکار آرزو کرنے

مگر اس دشت میں تو ایک آہو بھی نہیں نکلا

تری بھی حسن کاری کے ہزاروں لوگ ہیں قائل

گلی کوچوں سے لیکن اس کا جادو بھی نہیں نکلا

بتا اس دور میں اقبال ساجدؔ کون نکلے گا

صداقت کا علم لے کر اگر تو بھی نہیں نکلا

(1872) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

RuKH-e-raushan Ka Raushan Ek Pahlu Bhi Nahin Nikla In Urdu By Famous Poet Iqbal Sajid. RuKH-e-raushan Ka Raushan Ek Pahlu Bhi Nahin Nikla is written by Iqbal Sajid. Enjoy reading RuKH-e-raushan Ka Raushan Ek Pahlu Bhi Nahin Nikla Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Iqbal Sajid. Free Dowlonad RuKH-e-raushan Ka Raushan Ek Pahlu Bhi Nahin Nikla by Iqbal Sajid in PDF.