میں خود سوچتا ہوں

حادثے زندگی کی علامت ہیں لیکن وہ اک حادثہ

ہم جسے موت کہتے ہیں

کب اور کیسے کہاں رونما ہو کوئی جانتا ہے

بلا ریب کوئی نہیں جانتا

میں خود سوچتا ہوں مجھے ایک مدت سے کیا ہو گیا ہے

میرے پھیلے ہوئے جاگتے زندہ ہاتھوں کی سب انگلیاں سو چکی ہیں

میرے لرزاں لبوں پر جمی پیڑیاں برق سے راکھ ہوتے ہوئے ابر پر رو چکی ہیں

علم و عرفان کی راہ میں جیسے میری دعائیں اثر کھو چکی ہیں

میں کیا جانتا ہوں

فنا کے تسلسل میں کوئی گرہ ڈالنے کے لیے

حرف کن کی ضرورت ہے جو مانگنے پر بھی کوئی نہ دے گا

کہ اب وہ زمانوں سے بہتے ہوئے خون کا خوں بہا تو نہیں ہے

وہ جس کے تصرف میں سب کچھ ہے

حسن طلب کی مجھے داد دے کر اگر یہ کہے

خوب ہو تم مگر جانتے ہو کہ تم کون ہو

تم رہ رفتگاں کی مسافت کا اک اور آغاز ہو انتہا تو نہیں ہو

عدم اور موجود کے درمیاں اک کڑی ہو خدا تو نہیں ہو

تو میں کیا کہوں گا میں خود سوچتا ہوں

(754) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Main KHud Sochta Hun In Urdu By Famous Poet Jameel Ur Rahman. Main KHud Sochta Hun is written by Jameel Ur Rahman. Enjoy reading Main KHud Sochta Hun Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Jameel Ur Rahman. Free Dowlonad Main KHud Sochta Hun by Jameel Ur Rahman in PDF.