بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی

بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی

سو مرے خواب بھی گئے سو میری نیند بھی گئی

دل کا تھا ایک مدعا جس نے تباہ کر دیا

دل میں تھی ایک ہی تو بات وہ جو فقط سہی گئی

جانئے کیا تلاش تھی جونؔ مرے وجود میں

جس کو میں ڈھونڈھتا گیا جو مجھے ڈھونڈھتی گئی

ایک خوشی کا حال ہے خوش سخناں کے درمیاں

عزت شائقین غم تھی جو رہی سہی گئی

بود و نبود کی تمیز ایک عذاب تھی کہ تھی

یعنی تمام زندگی دھند میں ڈوبتی گئی

اس کے جمال کا تھا دن میرا وجود اور پھر

صبح سے دھوپ بھی گئی رات سے چاندنی گئی

جب میں تھا شہر ذات کا تھا مرا ہر نفس عذاب

پھر میں وہاں کا تھا جہاں حالت ذات بھی گئی

گرد فشاں ہوں دشت میں سینہ زناں ہوں شہر میں

تھی جو صبائے سمت دل جانے کہاں چلی گئی

تم نے بہت شراب پی اس کا سبھی کو دکھ ہے جونؔ

اور جو دکھ ہے وہ یہ ہے تم کو شراب پی گئی

(3019) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Baat Koi Umid Ki Mujhse Nahin Kahi Gai In Urdu By Famous Poet Jaun Eliya. Baat Koi Umid Ki Mujhse Nahin Kahi Gai is written by Jaun Eliya. Enjoy reading Baat Koi Umid Ki Mujhse Nahin Kahi Gai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Jaun Eliya. Free Dowlonad Baat Koi Umid Ki Mujhse Nahin Kahi Gai by Jaun Eliya in PDF.