برف کے شہر کی ویران گذر گاہوں پر

برف کے شہر کی ویران گزر گاہوں پر

میرے ہی نقش قدم میرے سپاہی ہیں

مرا حوصلہ ہیں

زندگیاں

اپنے گناہوں کی پنہ گاہوں میں ہیں

رقص کناں

روشنیاں

بند دروازوں کی درزوں سے ٹپکتی ہوئی

قطرہ قطرہ

شب کی دہلیز پہ گرتی ہیں کبھی

کوئی مدہوش سی لے

جامہ مے اوڑھ کے آتی ہے گزر جاتی ہے

رات کچھ اور بپھر جاتی ہے

اور بڑھ جاتی ہیں خاموش کھڑی دیواریں

بے صدا صدیوں کے چونے سے چنی دیواریں

جو کہ ماضی بھی ہیں مستقبل بھی

جن کے پیچھے ہے کہیں

آتش لمحۂ موجود کہ جو

لمحۂ موجود کی حسرت ہے

مری نظم کی حیرت ہے جسے

ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں

گھومتا پھرتا ہوں میں برف بھری رات کی ویرانی میں

ان کہی نظم کی طغیانی میں

ہیں بھنور کتنے گہر کتنے ہیں

کتنے الاپیں پس پردہ لا

چشم نا بینا کے آفاق میں

کتنے بے رنگ کرے

کتنے دھنک رنگ خلا

کتنے سپنے ہیں کہ جو

شہر کے تنگ پلوں کے نیچے

ریستورانوں کی مہک اوڑھ کے سو جاتے ہیں

کتنی نیندیں ہیں کہ جو اپنے شبستانوں میں

ویلیم چاٹتی ہیں

جاگتی ہیں

(880) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Barf Ke Shahr Ki Viran Guzar-gahon Par In Urdu By Famous Poet Javaid Anwar. Barf Ke Shahr Ki Viran Guzar-gahon Par is written by Javaid Anwar. Enjoy reading Barf Ke Shahr Ki Viran Guzar-gahon Par Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Javaid Anwar. Free Dowlonad Barf Ke Shahr Ki Viran Guzar-gahon Par by Javaid Anwar in PDF.