ایک شرمندہ نظم

کن حرفوں کی تفہیم کروں

کن رنگوں کی تجسیم کروں

کس راہ چلوں اور چلتا جاؤں کھلا نہیں

ابھی دروازہ تو کھلا نہیں

کس پھول کی مدح لکھوں

اے حرف سحر آثار اے یوم آزادی

میں نے تو نہیں دیکھا

ترے لمس سے کون سا سنگ گلاب ہوا آئنہ آب ہوا

اس باغ میں کون سی مشت خاک کھلی خوشبو آزاد ہوئی

بے بس اور سات بہاریں اور خزائیں

ایک ہی موسم کی اجرک میں دیکھ چکا ہوں

لیکن میں نے وہ دن کس دن دیکھا ہے

جب آنکھیں روزن چھوڑ کے پھولوں کی کیاری میں بس جاتی ہیں کوئل گاتی ہے

کوئل گاتی ہے

جھولے پڑتے ہیں باغوں میں

حسن سے ریزہ ریزہ وصل ٹپکتا ہے

میں نے کب دیکھا ہے

ابھی دروازہ تو کھلا نہیں

ابھی دروازہ تو کھلا نہیں

دروازہ کھلے تو میں بھی قلم میں تازہ ہوا کی سیاہی بھر لوں اور اک خط لکھوں

میں تیرے پتے پر خط لکھوں

تو اپنا تعارف بھیج میں تجھ پر اک پیاری سی نظم لکھوں

کہ سنا ہے تو بھی پیارا سا اک لمس ہے

اک لمحہ ہے

لیکن میں نے تجھے کب چکھا سونگھا دیکھا سنا محسوس کیا ہے

جب سے میں جاگا ہوں

تو تو جنتریوں میں مورچہ بند ہے سویا ہوا ہے

جاگ اے نادیدہ ساعت

اے صدیوں کا اندوہ لیے لمحے اب مجھ پر بھی مٹھی بھر سحر چھڑک

بس ایک جھلک دکھلا

تیری ایک جھلک

مرے پانچ حواس کی بخیہ بخیہ ادھڑی جھولی سی بھی دے گی بھر بھی دے گی

پھر میں تجھ پر اک لا فانی نظم لکھوں گا

تجھے سنانے آؤں گا

(857) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Ek Sharminda Nazm In Urdu By Famous Poet Javaid Anwar. Ek Sharminda Nazm is written by Javaid Anwar. Enjoy reading Ek Sharminda Nazm Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Javaid Anwar. Free Dowlonad Ek Sharminda Nazm by Javaid Anwar in PDF.