پھرتے ہیں کب سے در بدر اب اس نگر اب اس نگر اک دوسرے کے ہم سفر میں اور مری آوارگی

پھرتے ہیں کب سے در بدر اب اس نگر اب اس نگر اک دوسرے کے ہم سفر میں اور مری آوارگی

نا آشنا ہر رہگزر نا مہرباں ہر اک نظر جائیں تو اب جائیں کدھر میں اور مری آوارگی

ہم بھی کبھی آباد تھے ایسے کہاں برباد تھے بے فکر تھے آزاد تھے مسرور تھے دل شاد تھے

وہ چال ایسی چل گیا ہم بجھ گئے دل جل گیا نکلے جلا کے اپنا گھر میں اور مری آوارگی

جینا بہت آسان تھا اک شخص کا احسان تھا ہم کو بھی اک ارمان تھا جو خواب کا سامان تھا

اب خواب ہے نے آرزو ارمان ہے نے جستجو یوں بھی چلو خوش ہیں مگر میں اور مری آوارگی

وہ ماہ وش وہ ماہ رو وہ ماہ کام ہو بہو تھیں جس کی باتیں کو بہ کو اس سے عجب تھی گفتگو

پھر یوں ہوا وہ کھو گئی تو مجھ کو ضد سی ہو گئی لائیں گے اس کو ڈھونڈ کر میں اور مری آوارگی

یہ دل ہی تھا جو سہ گیا وہ بات ایسی کہہ گیا کہنے کو پھر کیا رہ گیا اشکوں کا دریا بہہ گیا

جب کہہ کے وہ دل بر گیا تیرے لیے میں مر گیا روتے ہیں اس کو رات بھر میں اور مری آوارگی

اب غم اٹھائیں کس لیے آنسو بہائیں کس لیے یہ دل جلائیں کس لیے یوں جاں گنوائیں کس لیے

پیشہ نہ ہو جس کا ستم ڈھونڈیں گے اب ایسا صنم ہوں گے کہیں تو کارگر میں اور مری آوارگی

آثار ہیں سب کھوٹ کے امکان ہیں سب چوٹ کے گھر بند ہیں سب گوٹ کے اب ختم ہیں سب ٹوٹکے

قسمت کا سب یہ پھیر ہے اندھیر ہے اندھیر ہے ایسے ہوئے ہیں بے اثر میں اور مری آوارگی

جب ہمدم و ہمراز تھا تب اور ہی انداز تھا اب سوز ہے تب ساز تھا اب شرم ہے تب ناز تھا

اب مجھ سے ہو تو ہو بھی کیا ہے ساتھ وہ تو وہ بھی کیا اک بے ہنر اک بے ثمر میں اور مری آوارگی

(2082) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Phirte Hain Kab Se Dar-ba-dar Ab Is Nagar Ab Us Nagar Ek Dusre Ke Ham-safar Main Aur Meri Aawargi In Urdu By Famous Poet Javed Akhtar. Phirte Hain Kab Se Dar-ba-dar Ab Is Nagar Ab Us Nagar Ek Dusre Ke Ham-safar Main Aur Meri Aawargi is written by Javed Akhtar. Enjoy reading Phirte Hain Kab Se Dar-ba-dar Ab Is Nagar Ab Us Nagar Ek Dusre Ke Ham-safar Main Aur Meri Aawargi Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Javed Akhtar. Free Dowlonad Phirte Hain Kab Se Dar-ba-dar Ab Is Nagar Ab Us Nagar Ek Dusre Ke Ham-safar Main Aur Meri Aawargi by Javed Akhtar in PDF.