حسن اور مزدوری

ایک دوشیزہ سڑک پر دھوپ میں ہے بے قرار

چوڑیاں بجتی ہیں کنکر کوٹنے میں بار بار

چوڑیوں کے ساز میں یہ سوز ہے کیسا بھرا

آنکھ میں آنسو بنی جاتی ہے جس کی ہر صدا

گرد ہے رخسار پر زلفیں اٹی ہیں خاک میں

نازکی بل کھا رہی ہے دیدۂ غم ناک میں

ہو رہا ہے جذب مہر خونچکاں کے روبرو

کنکروں کی نبض میں اٹھتی جوانی کا لہو

دھوپ میں لہرا رہی ہے کاکل عنبر سرشت

ہو رہا ہے کمسنی کا لوچ جزو سنگ و خشت

پی رہی ہیں سرخ کرنیں مہر آتش بار کی

نرگسی آنکھوں کا رس مے چمپئی رخسار کی

غم کے بادل خاطر نازک پہ ہیں چھائے ہوئے

عارض رنگیں ہیں یا دو پھول مرجھائے ہوئے

چیتھڑوں میں دیدنی ہے روئے غمگین شباب

ابر کے آوارہ ٹکڑوں میں ہو جیسے ماہتاب

اف یہ ناداری مرے سینے سے اٹھتا ہے دھواں

آہ اے افلاس کے مارے ہوئے ہندوستاں!

حسن ہو مجبور کنکر توڑنے کے واسطے

دست نازک اور پتھر توڑنے کے واسطے

فکر سے جھک جائے وہ گردن تف اے لیل و نہار

جس میں ہونا چاہیئے پھولوں کا اک ہلکا سا ہار

آسماں جان طرب کو وقف رنجوری کرے

صنف نازک بھوک سے تنگ آ کے مزدوری کرے

اس جبیں پر اور پسینہ ہو جھلکنے کے لیے

جو جبین ناز ہو افشاں چھڑکنے کے لیے

بھیک میں وہ ہاتھ اٹھیں التجا کے واسطے

جن کو قدرت نے بنایا ہو حنا کے واسطے

نازکی سے جو اٹھا سکتی نہ ہو کاجل کا بار

ان سبک پلکوں پہ بیٹھے راہ کا بوجھل غبار

کیوں فلک مجبور ہوں آنسو بہانے کے لیے

انکھڑیاں ہوں جو دلوں میں ڈوب جانے کے لیے

مفلسی چھانٹے اسے قہر و غضب کے واسطے

جس کا مکھڑا ہو شبستان طرب کے واسطے

فرط خشکی سے وہ لب ترسیں تکلم کے لیے

جن کو قدرت نے تراشا ہو تبسم کے لیے

نازنینوں کا یہ عالم مادر ہند آہ آہ

کس کے جور ناروا نے کر دیا تجھ کو تباہ؟

ہن برستا تھا کبھی دن رات تیری خاک پر

سچ بتا اے ہند تجھ کو کھا گئی کس کی نظر

باغ تیرا کیوں جہنم کا نمونہ ہو گیا

آہ کیوں تیرا بھرا دربار سونا ہو گیا

سر برہنہ کیوں ہے وہ پھولوں کی چادر کیا ہوئی

اے شب تاریک تیری بزم اختر کیا ہوئی

جس کے آگے تھا قمر کا رنگ پھیکا کیا ہوا

اے عروس نو ترے ماتھے کا ٹیکا کیا ہوا

اے خدا ہندوستاں پر یہ نحوست تا کجا؟

آخر اس جنت پہ دوزخ کی حکومت تا کجا؟

گردن حق پر خراش تیغ باطل تا بہ کے؟

اہل دل کے واسطے طوق و سلاسل تا بہ کے؟

سر زمین رنگ و بو پر عکس گلخن تا کجا؟

پاک سیتا کے لیے زندان راون تا کجا؟

دست نازک کو رسن سے اب چھڑانا چاہیئے

اس کلائی میں تو کنگن جگمگانا چاہیئے

(1512) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Husn Aur Mazduri In Urdu By Famous Poet Josh Malihabadi. Husn Aur Mazduri is written by Josh Malihabadi. Enjoy reading Husn Aur Mazduri Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Josh Malihabadi. Free Dowlonad Husn Aur Mazduri by Josh Malihabadi in PDF.