خاتون مشرق

غنچۂ دل مرد کا روز ازل جب کھل چکا

جس قدر تقدیر میں لکھا ہوا تھا مل چکا

دفعتاً گونجی صدا پھر عالم انوار میں

عورتیں دنیا کی حاضر ہوں مرے دربار میں

عورتوں کا کارواں پر کارواں آنے لگا

پھر فضا میں پرچم انعام لہرانے لگا

ناز سے حوریں ترانے حمد کے گانے لگیں

عورتیں بھر بھر کے اپنی جھولیاں جانے لگیں

جب رہا کچھ بھی نہ باقی کیسۂ انعام میں

کانپتی حاضر ہوئیں پھر ایشیا کی عورتیں

دل میں خوف شومئی قسمت سے گھبرائی ہوئی

رعب سے نیچی نگاہیں آنکھ شرمائی ہوئی

حلم کے سانچے میں روح ناز کو ڈھالے ہوئے

گردنوں میں خم سروں پر چادریں ڈالے ہوئے

آخر اس انداز پر رحمت کو پیار آ ہی گیا

مے کدے پر جھوم کر ابر بہار آ ہی گیا

مسکرا کر خالق ارض و سما نے دی ندا

اے غزال مشرقی آ تخت کے نزدیک آ

نعمتیں سب بٹ چکیں لیکن نہ ہونا مضمحل

سب کو بخشے ہیں دماغ اور لے تجھے دیتے ہیں دل

یہ وہی دل ہے جو مضرب ہوکے سوز و ساز سے

میرے پہلو میں دھڑکتا تھا عجب انداز سے

تجھ کو وہ رخ اپنی سیرت کا دیئے دیتے ہیں ہم

جس میں یزدانی نسائیت کی زلفوں کے ہیں خم

آ کہ تجھ کو صاحب مہر و وفا کرتے ہیں ہم

لے خود اپنی جنبش مژگاں عطا کرتے ہیں ہم

پہلوئے خاتون مشرق میں بصد تمکین و ناز

منتقل ہو جا الوہیت کے سینے کے گداز

عورتیں اقوام عالم کی بھٹک جائیں گی جب

تو رہے گی بن کے اس طوفاں میں اک موج طرب

حسن ہو جائے گا جب اوروں کا وقف خاص و عام

دیدنی ہوگا ترے خلوت کدے کا اہتمام

عالم نسواں پہ کالی رات جب چھا جائے گی

یہ ترے ماتھے کی بندی صبح کو شرمائے گی

عورتیں بیچیں گی جب اسٹیج پر با رقص و چنگ

اپنی آنکھوں کی لگاوٹ اپنے رخساروں کا رنگ

ان کے آگے ہر نیا میدان ہوگا جلوہ گاہ

اور ترا اسٹیج ہوگا صرف شوہر کی نگاہ

گودیاں پھیلا کے جب مانگیں گی با صدق و صفا

عورتیں اولاد کے پیدا نہ ہونے کی دعا

مژدہ باد اے ایشیا کی دختر پاکیزہ تر

آنچ آئے گی نہ تیرے مادرانہ ذوق پر

ماؤں کی غفلت سے جب بچوں کو پہنچے گا گزند

جب فغاں بے تربیت اولاد کی ہوگی بلند

صرف اک تیرا تبسم اے جمال تابناک

سینۂ اطفال میں پیدا کرے گا روح پاک

وہ حرارت تیرے ہونٹوں کی نہ ہوگی پائمال

جس کے شعلوں سے نکھر جاتا ہے رنگ نونہال

وہ تری معصوم رعنائی نہ ہوگی مضمحل

بخشتی ہے نسل انسانی کے پہلو کو جو دل

وہ بھی دن آئے گا جب تجھ کو ہی اے مست حجاب

زیب دے گا مادر اولاد آدم کا خطاب

جب کرے گی صنف نازک اپنی عریانی پہ ناز

صرف اک تو اس تلاطم میں رہے گی پاکباز

ان کے دل جب ہوں گے یاد معصیت سے پاش پاش

تیرے رخ پر ایک بھی ہوگی نہ ماضی کی خراش

ان کی راتیں خوف رسوائی سے ہوں گی جب دراز

تیرے سینے میں کسی شب کا نہ ہوگا کوئی راز

دہشت فردا سے تھرائے گا جب ان کا غرور

حال سے تو ہوگی راضی خوف مستقبل سے دور

جب اڑے گی ان کی چشم دام پروردہ میں خاک

نرم ڈورے تیری آنکھوں کے رہیں گے تابناک

نرم ہوں گے تیرے جلوے بھی تری گفتار بھی

با حیا ہوگی تری پازیب کی جھنکار بھی

چھاؤں بھی ہوگی نہ تیری بزم ناؤ نوش میں

تیرا پرتو تک رہے گا شرم کے آغوش میں

اے شعاع ارض مشرق تیری عفت کا شعار

کج کرے گا ملک و ملت کی کلاہ افتخار

آبرو ہوگا گھرانے بھر کی تیرا رکھ رکھاؤ

دے گا تیرا باپ شان فخر سے مونچھوں پہ تاؤ

تیری آنکھوں کی کرن سے اے جہان اعتبار

جگمگائے گی نسب ناموں کی لوح زر نگار

بو الہوس کا سر جھکا دے گی تری ادنیٰ جھلک

ہوگی لہجے میں ترے نبض طہارت کی دھمک

تیری پیشانی پہ جھلکے گا مثال برق طور

طفل کا ناز شرافت اور شوہر کا غرور

علم سے ہر چند تجھ کو کم کیا ہے بہرہ مند

لیکن اس سے ہو نہ اے معصوم عورت درد مند

جب ضرورت سے زیادہ ناز فرماتا ہے علم

عارض تاباں کے بھولے پن کو کھا جاتا ہے علم

نطق ہو جاتا ہے علمی اصطلاحوں سے اداس

لعل لب میں شہد کی باقی نہیں رہتی مٹھاس

علم اٹھا لیتا ہے بزم جاں سے شمع اعتقاد

خال و خد کی موت ہے چہرے کی شان اجتہاد

قعر وحشت کی طرف مڑتی ہے اکثر راہ فن

جھانکتی رہتی ہے اس غرفے سے چشم اہرمن

چھوڑ دیتی تکلم کو ملائم قیل و قال

علم کا حد سے گزر جانا ہے توہین جمال

علم سے بڑھتی ہے عقل اور عقل ہے وہ بددماغ

جو بجھا دیتی ہے سینے میں محبت کا چراغ

علم سے باقی نہیں رہتے محبت کے صفات

اور محبت ہے فقط لے دے کے تیری کائنات

دیکھ تجھ پر علم کی بھرپور پڑ جائے نہ ضرب

بھاگ اس پردے میں ہیں شیطان کے آلات حرب

علم سے رہتی ہے پابند شکن جس کی جبیں

ناز سے شانوں پر اس کی زلف لہراتی نہیں

وقت سے پہلے بلا لیتے ہیں پیری کو علوم

عمر سے آگے نکل جاتے ہیں چہرے بالعموم

جن لبوں کو چاٹ پڑ جاتی ہے قیل و قال کی

ان کی گرمی کو ترستی ہے جبیں اطفال کی

اک جنوں پرور بگولا ہے وہ علم بے وثوق

جس کی رو میں کانپنے لگتے ہیں شوہر کے حقوق

دور ہی سے ایسے علم جہل پرور کو سلام

حسن نسواں کو بنا دیتا ہو جو جاگیر عام

جس جگہ حوران جنت کا کیا ہے تذکرہ

کیا کہا ہے اور بھی کچھ ہم نے جز حسن و حیا

تذکرہ حوروں کا ہے محض ایک تصویر جمال

ہم نے کیا ان کو کہا ہے ''صاحب فضل و کمال''

ہیچ ہے ہر چیز زیور غازہ افشاں رنگ و خال

حسن خود اپنی جگہ ہے سو کمالوں کا کمال

چاندنی، قوس قزح، عورت، شگوفہ، لالہ زار

علم کا ان نرم شانوں پر کوئی رکھتا ہے بار؟

روشنائی میں کہیں گھلتی ہے موج ماہتاب

کیا کوئی اوراق گل پر طبع کرتا ہے کتاب

میرے عالم میں نہیں اس بدمذاقی کا شعار

کاکل افسانہ ہو دوش حقیقت سے دو چار

حسن کا آغوش رنگیں دل فریب و دل ربا

علم سے بن جائے اقلیدس کا محض اک دائرہ!

مصحف روئے کتابی روکش ناز گلاب

اور بن جائے یہ نعمت دفتر علم حساب

نغمۂ شیریں کے دامن میں ہو شور کائنات

بزم کاوش میں جلے شمع شبستان حیات

گرم ہو تیزاب کی کھولن سے لالے کا ایاغ

غنچۂ نورس کا طاق اور پیر مکتب کا چراغ

شہپر بلبل پہ کھینچی جائے تصویر شغال!

موتیوں پر ثبت ہو طوفان کی مہر جلال

صبح غرق بحث ہو غنچے کھلانے کے عوض

درس دیں موجیں صبا کی گنگنانے کی عوض

تو نہ کرنا مغربی متوالیوں کی ریس دیکھ

گھات میں تیری لگا ہے فتنۂ ابلیس دیکھ

تو نہ ان کی طرح بھرنا عرصۂ فن میں چھلانگ

کوکھ تا ٹھنڈی رہے بچوں سے اور صندل سے مانگ

دختران مغربی کو دے نہ عورت کا خطاب

یہ مجسم ہو گئے ہیں کچھ گنہ گاروں کے خواب

پھر رہی ہیں یا تری نظروں کے آگے پر فضا

عورتوں کے بھیس میں شیطان کی سرتابیاں

علم حاصل کر فقط تدبیر منزل کے لیے

وہ دماغوں کے لیے ہیں اور تو دل کے لیے!

(2295) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

KHatun-e-mashriq In Urdu By Famous Poet Josh Malihabadi. KHatun-e-mashriq is written by Josh Malihabadi. Enjoy reading KHatun-e-mashriq Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Josh Malihabadi. Free Dowlonad KHatun-e-mashriq by Josh Malihabadi in PDF.