نافع ہے کچھ تو وہ کسی فیضان ہی کا ہے

نافع ہے کچھ تو وہ کسی فیضان ہی کا ہے

ورنہ تعلقہ مرا نقصان ہی کا ہے

کلفت ہے سب کی سب یہ توقع کے نام کی

جو بھی کیا دھرا ہے یہ امکان ہی کا ہے

مال و منال دست گہہ حادثات کا

رہتے ہیں گر بحال تو اوسان ہی کا ہے

منظر وہ ہے کہ جو کبھی ششدر نہ کر سکے

حیرت یہ ہے کہ دیدۂ حیران ہی کا ہے

الزام خود ہوں میں یہاں ہستی کے نام پر

میرا وجود اصل میں بہتان ہی کا ہے

تفصیل میں تو سمٹا ہوا ہی تھا انکسار

اجمال بھی یہ عجز کے عنوان ہی کا ہے

آخر عیاں ہوا کہ مراسم کی ذیل میں

اسباب دل شکستگی پیمان ہی کا ہے

جب تک بہ دوش رہتا ہے رہتا ہوں گامزن

میرا سفر حقیقتاً سامان ہی کا ہے

اترے وہ ناؤ شوق سے ہو ڈوبنا جسے

ساحل مزاج بحر کا طوفان ہی کا ہے

آوارگاں کے واسطے کردار دشت کا

انجام کار حیطۂ زندان ہی کا ہے

جائے پناہ اس کی کوئی دوسری نہیں

خاورؔ کہیں کا ہے تو بیابان ہی کا ہے

(787) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Nafe Hai Kuchh To Wo Kisi Faizan Hi Ka Hai In Urdu By Famous Poet Khaavar Jilani. Nafe Hai Kuchh To Wo Kisi Faizan Hi Ka Hai is written by Khaavar Jilani. Enjoy reading Nafe Hai Kuchh To Wo Kisi Faizan Hi Ka Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Khaavar Jilani. Free Dowlonad Nafe Hai Kuchh To Wo Kisi Faizan Hi Ka Hai by Khaavar Jilani in PDF.