پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے

پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے

سینہ جویائے زخم کاری ہے

پھر جگر کھودنے لگا ناخن

آمد فصل لالہ کاری ہے

قبلۂ مقصد نگاہ نیاز

پھر وہی پردۂ عماری ہے

چشم دلال جنس رسوائی

دل خریدار ذوق خواری ہے

وہی صد رنگ نالہ فرسائی

وہی صد گونہ اشک باری ہے

دل ہوائے خرام ناز سے پھر

محشرستان بیقراری ہے

جلوہ پھر عرض ناز کرتا ہے

روز بازار جاں سپاری ہے

پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں

پھر وہی زندگی ہماری ہے

پھر کھلا ہے در عدالت ناز

گرم بازار فوجداری ہے

ہو رہا ہے جہان میں اندھیر

زلف کی پھر سرشتہ داری ہے

پھر دیا پارۂ جگر نے سوال

ایک فریاد و آہ و زاری ہے

پھر ہوئے ہیں گواہ عشق طلب

اشک باری کا حکم جاری ہے

دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا

آج پھر اس کی روبکاری ہے

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

(1715) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Phir Kuchh Ek Dil Ko Be-qarari Hai In Urdu By Famous Poet Mirza Ghalib. Phir Kuchh Ek Dil Ko Be-qarari Hai is written by Mirza Ghalib. Enjoy reading Phir Kuchh Ek Dil Ko Be-qarari Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Mirza Ghalib. Free Dowlonad Phir Kuchh Ek Dil Ko Be-qarari Hai by Mirza Ghalib in PDF.