در صفت انبہ

ہاں دل دردمند زمزمہ ساز

کیوں نہ کھولے در خزینۂ راز

خامے کا صفحے پر رواں ہونا

شاخ گل کا ہے گلفشاں ہونا

مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے

نکتہ ہاے خرد فزا لکھیے

بارے آموں کا کچھ بیاں ہوجائے

خامہ نخل رطب فشاں ہوجائے

آم کا کون مرد میداں ہے

ثمر و شاخ گوے و چوگاں ہے

تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں

آئے یہ گوے اور یہ میداں

آم کے آگے پیش جاوے خاک

پھوڑتا ہے جلے پھپولے تاک

نہ چلا جب کسی طرح مقدور

بادۂ ناب بن گیا انگور

یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے

شرم سے پانی پانی ہونا ہے

مجھ سے پوچھو تمہیں خبر کیا ہے

آم کے آگے نیشکر کیا ہے

نہ گل اس میں نہ شاخ و برگ نہ بار

جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار

اور دوڑائیے قیاس کہاں

جان شیریں میں یہ مٹھاس کہاں

جان میں ہوتی گریہ شیرینی

کوہکن باوجود غمگینی

جان دینے میں اس کو یکتا جان

پر وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان

نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر

کہ دواخانۂ ازل میں مگر

آتش گل پہ قند کا ہے قوام

شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام

یہ یہ ہو گا کہ فرط رافت سے

باغبانوں نے باغ جنت سے

انگبیں کے بحکم رب الناس

بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس

یا لگا کر خضر نے شاخ نبات

مدتوں تک دیا ہے آب حیات

تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل

ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخل

تھا ترنج زر ایک خسرو پاس

رنگ کا زرد پر کہاں بو باس

آم کو دیکھتا اگر اک بار

پھینک دیتا طلاے دست افشار

رونق کار گاہ برگ و نوا

نازش دودمان آب و ہوا

رہرو راہ خلد کا توشہ

طوبی و سدرہ کا جگر گوشہ

صاحب شاخ و برگ و بار ہے آم

ناز پروردۂ بہار ہے آم

خاص وہ آم جو نہ ارزاں ہو

نو بر نخل باغ سلطاں ہو

وہ کہ ہے والی ولایت عہد

عدل سے اس کے ہے حمایت عہد

فخر دیں عز شان و جاہ جلال

زینت طینت و جمال کمال

کار فرماے دین و دولت و بخت

چہرہ آراے تاج و مسند و تخت

سایہ اس کا ہما کا سایہ ہے

خلق پر وہ خدا کا سایہ ہے

اے مفیض وجود سایہ و نور

جب تلک ہے نمود سایہ و نور

اس خداوند بندہ پرور کو

وارث گنج و تخت و افسر کو

شاد و دلشاد و شادماں رکھیو

اور غالب پہ مہرباں رکھیو

(675) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Mirza Ghalib. is written by Mirza Ghalib. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Mirza Ghalib. Free Dowlonad  by Mirza Ghalib in PDF.