نظم

''مشکیزے کا پانی اسی ریت پر ڈال دو

اور ننگے پاؤں میرے پیچھے چلے آؤ''

میں نے سارا پانی ریت پر گرا دیا

اور ننگے پاؤں اس کے پیچھے ہو لیا

کئی صحرا ہم نے عبور کر ڈالے

زہریلے کانٹوں اور زہریلے کیڑوں پر پاؤں رکھتے ہوئے

ہم آگے بڑھتے رہے

اچانک مجھے محسوس ہوا

کہ میں تو صحرا میں اکیلا ہی چلا جا رہا ہوں

تو کیا اس نے میرے ساتھ دھوکا کیا؟

میں تو صحرا کے بیچ سمت کا تعین کرنے سے بھی قاصر تھا

وہ چند قدم آگے ہی تو تھا مجھ سے

پھر وہ اچانک جانے کس بل میں چھپ گیا

میں نے اسے بہت پکارا

لیکن میری آواز تو صحرا میں ایسے بکھر کر رہ گئی

جیسے میرے مشکیزے کا پانی

ریت میں جذب ہو گیا تھا

جب تم صحرا میں اپنا مشکیزہ چھوڑ آئے

جب تم ایک سانپ کے ساتھ ہو لیے

اور تمہیں پتا ہی نہ چلا کہ وہ کس بل میں جا چھپا ہے

تو تمہارے پیر رگڑنے سے

صحرا میں چشمہ تو ابلنے سے رہا

میرے مشکیزے میں پانی نہیں تھا

میرے پاؤں ننگے تھے

مجھے کسی منزل کا پتا نہیں تھا

اور کسی سمت کا تعین تک کرنے سے

میں قاصر تھا

میرے پاس بس ایک ہی راستہ رہ گیا تھا

سو میں نے اپنے پاؤں سے کانٹا نکالا

اور ریت میں بو دیا

چند گھنٹوں میں وہ ایک سایہ دار درخت میں تبدیل ہو گیا

اور اس میں عجیب و غریب پھل پیدا ہو گئے

میں زہریلے

اور غیر زہریلے پھلوں میں تمیز نہیں کر سکتا تھا

اور میرے لیے

کوئی من و سلویٰ بھی آسمان سے اترتا نہیں تھا

سو میں نے ان پھلوں کو رغبت سے کھایا

اتنے میں شام ہو گئی

اور صحرا کی تاریکی میں

صحرا کے زہریلے کیڑے مکوڑے

اپنے بلوں سے نکل کر میرے بدن سے چمٹ گئے

کرسی پر نیم دراز ہو جاتا ہے

ہم دونوں

کوئی بات نہیں کرتے

نہ سگریٹ جلانے کے لیے

ایک دوسرے کو لائٹر پیش کرتے ہیں

اس کا بس چلے تو وہ مجھے ہلاک کر دے

میرے بھی اس کے بارے میں

یہی کچھ جذبات ہیں

اس کے باوجود

جب بھی میں اسے بلاتا ہوں

وہ آ جاتا ہے

میرے بلاوے میں نہ اصرار ہوتا ہے

نہ دھمکی

نہ کوئی شرط

یہ وہ بھی جانتا ہے

میرے بلاوے میں

کسی خواہش کی رمق نہیں

ہم دونوں

کسی بھی دن

اپنے قریب ترین ستون کی اوٹ لے کر

ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں

لیکن

زندہ بچنے والے کے مقابلے میں

مر جانے والا

زیادہ خوش نصیب ثابت ہوگا

بچنے والے کو

ہلاک ہونے والے کا جسم

اٹھا کر چلنا ہوگا

اس کے خون آلود کپڑے اتار کر

اسے صاف ستھرے کپڑے پہنانے ہوں گے

مرنے والے کی لاش کو

کسی بھی قسم کے خورد بینی کیڑوں سے

محفوظ رکھنے کے لیے

جتن کرنا ہوں گے

پھر اس کی لاش کو

سہارا دے کر

کسی آرام دہ کرسی پر بیٹھانا ہوگا

اس کے منہ سے سگریٹ لگانا ہوگا

اسے لائٹر بھی پیش کرنا ہوگا

بلکہ اس کی موت کو

اپنی موت سمجھتے ہوئے

دو قبریں

برابر کھودنی ہوں گی

بسیں اور کاریں ان کے قریب آ کر

درختوں کو چھوتی ہیں

اور انہیں

سڑک کے دائیں یا بائیں ہٹانے میں جٹ جاتی ہیں

لیکن اسی دوران

شراب کی بو انہیں بھی

بد مست کر دیتی ہے

وہ بھی سڑک کے بیچوں بیچ ناچنے لگتی ہیں

پھر تو بل کھاتی سڑک بھی

اٹھ کھڑی ہوتی ہے

اور ٹھمکے لگانے لگتی ہے

گھر تھرتھرا اٹھتے ہیں

ان میں سوئے ہوئے مکین

ہڑبڑا کر جاگ جاتے ہیں

انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا

شرابی درختوں

نشے میں دھت بسوں، کاروں

اور بد مست ناچتی سڑک کو

شہر میں بسنے والے لوگوں کی

کوئی پروا نہیں

یہ دیکھ کر

آدمی کا نشہ

ہرن ہو جاتا ہے

(584) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Saeeduddin. is written by Saeeduddin. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Saeeduddin. Free Dowlonad  by Saeeduddin in PDF.