سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے

سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے

دل جل اٹھا تو خود ہی اندھیرے سمٹ گئے

دن بھر جلے جو دھوپ کے بستر پہ دوستو

سورج چھپا تو چادر شب میں سمٹ گئے

وہ کرب تھا کہ دل کا لہو آنچ دے اٹھا

ایسی ہوا چلی کہ گریبان پھٹ گئے

وہ فکر تھی کہ دیدہ و دل مضمحل ہوئے

وہ گرد تھی کہ گھر کے در و بام اٹ گئے

آئی جو موج پاؤں زمیں پر نہ جم سکے

دریا چڑھا تو کتنے سفینے الٹ گئے

پھیلا غبار غم تو کہیں منہ چھپا لیا

آندھی اٹھی تو گھر کے ستوں سے لپٹ گئے

کہتے تھے جس کو قرب وہی فاصلہ بنا

بدلا جو رخ ندی نے کئی شہر کٹ گئے

گمنام تھے تو سب کی طرف دیکھتے تھے ہم

شہرت ملی تو اپنی خودی میں سمٹ گئے

دستک ہوئی تو دل کا دریچہ نہ کھل سکا

آئے اور آ کے یاد کے جھونکے پلٹ گئے

میں خود ہی اپنی راہ کا پتھر بنا رہا

ہر چند آپ بھی مرے رستے سے ہٹ گئے

دل کو کسی کی یاد کا غم چاٹتا رہا

یوں میری زندگی کے کئی سال گھٹ گئے

زندان غم کا دھیان بھی خنجر سے کم نہ تھا

زنجیر کی کھنک سے مرے پاؤں کٹ گئے

رستے رہیں گے دیدۂ حسرت سے عمر بھر

زلفیؔ جو زخم پائے طلب سے چمٹ گئے

(620) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Saif Zulfi. is written by Saif Zulfi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Saif Zulfi. Free Dowlonad  by Saif Zulfi in PDF.