ہر چند کہ پیارا تھا میں سورج کی نظر کا

ہر چند کہ پیارا تھا میں سورج کی نظر کا

پھر بھی مجھے کھٹکا ہی رہا شب کے سفر کا

الجھی ہے بہت جسم سے دریا کی روانی

اس چوبی محل کا کوئی تختہ بھی نہ سر کا

ڈوبا ہوا ایوان شفق بھی ہے دھوئیں میں

بے رنگ سا ہر نقش ہے دیوار سحر کا

رستے ہوئے ناسور پہ چلتے رہے نشتر

تازہ ہی رہا پھول سدا زخم ہنر کا

میں ہوں کہ کڑی دھوپ کے صحرا میں گھرا ہوں

سایہ کہیں ملتا ہی نہیں شاخ شجر کا

مظلوم تھا میں کل بھی تو محروم ہوں اب بھی

عنوان بدلتا ہی نہیں میری خبر کا

بجلی تو سنا ہے کہیں جنگل میں گری تھی

اترا ہوا چہرہ ہے چمن میں گل تر کا

تب برف کے مہتاب سے پھوٹیں گی شعاعیں

بجھ جائے گا جب شعلہ مرے داغ جگر کا

آئینہ شکستہ ہوا چبھنے لگیں پلکیں

نظارہ بھی دیکھا نہ گیا روپ نگر کا

آسیب ہو صرصر ہو بلا ہو کہ قضا ہو

سب کے لیے دروازہ کھلا ہے مرے گھر کا

اڑتی ہی رہی خاک بدن تیز ہوا میں

احسان یہ کچھ کم تو نہیں برق و شرر کا

مٹ جائیں گی پیشانیٔ مرمر سے لکیریں

اب رنگ اتر جائے گا طاؤس کے پر کا

خوشیوں کا چمک دار ہرن ہاتھ نہ آیا

پیچھا کیا آہوں نے بہت جذب و اثر کا

کس طرح میسر ہو مجھے عرصۂ راحت

ہر لحظہ نئی چوٹ نیا غم نیا چرکا

صدیقؔ جنہیں راہ وفا میں نے سجھائی

پتھر وہی کہتے ہیں مجھے راہ گزر کا

(628) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Siddique Afghani. is written by Siddique Afghani. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Siddique Afghani. Free Dowlonad  by Siddique Afghani in PDF.