میں لڑکھڑایا تو مجھ کو گلے لگانے لگے

میں لڑکھڑایا تو مجھ کو گلے لگانے لگے

گناہ گار بھی میری ہنسی اڑانے لگے

مری قدیم روایت کو آزمانے لگے

مخالفین بھی اب کشتیاں جلانے لگے

دل حریص سے تعمیر کی ہوس نہ گئی

وہ سطح آب پہ کاغذ کا گھر بنانے لگے

کسی کی راہ منور میں معجزہ یہ ہوا

ہمارے نقش کف پا بھی جگمگانے لگے

نہ جانے کس کا ہمیں انتظار رہنے لگا

کہ طاق دل پہ دیا روز ہم جلانے لگے

ہوئے کچھ اتنے مہذب کہ سانس گھٹنے لگی

جنوں پسند گلے تک بٹن لگانے لگے

جنہوں نے کانٹوں پہ چلنا ہمیں سکھایا تھا

ہماری راہ میں وہ پھول اب بچھانے لگے

شروع ہو گیا آنکھوں میں جشن خوش خوابی

ہوئی جو رات تو ہر سمت شامیانے لگے

(661) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Sultan Akhtar. is written by Sultan Akhtar. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Sultan Akhtar. Free Dowlonad  by Sultan Akhtar in PDF.