خزاں نصیبوں پہ بین کرتی ہوئی ہوائیں

لہو کی پیاسی برہنہ تیغوں کو یہ پتا ہے

چمکتے خنجر یہ جانتے ہیں

کہ شاہزادی کی لغزشوں سے

غلام شاہی کی جرأتوں سے

حرم کی حرمت کا خوں ہوا ہے

محل کی عظمت کا خوں ہوا ہے

شرافتوں اور نجابتوں کے چراغ و مہتاب بجھ گئے ہیں

بہ نام الفت

یہ آگ کیسی ہوئی ہے روشن کہ طاق و محراب بجھ گئے ہیں

حروف عصمت تھے جن سے روشن

وہ سارے اعراب بجھ گئے ہیں

شجاعتوں کے امین لشکر نظر جھکائے کھڑے ہوئے ہیں

بس اک اشارے کے منتظر ہے تبر اٹھائے کھڑے ہوئے ہیں

بہ نام عزت

بہ حکم شاہی

بس ایک شب میں

برہنہ تیغوں نے سارے منظر بدل دئے ہیں

فصیل قصر انا کے نیچے وفا کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں

جواں محبت کی گرم لاشوں پہ کون روئے

کہ خوف شاہی سے بزم گریہ کے سارے آداب بجھ گئے ہیں

کوئی خلاف ستم نہیں ہے

کسی کو رنج و الم نہیں ہے

ذرا بھی خوف عدم نہیں ہے

کسی کی آنکھیں بھی نم نہیں ہیں

ستم بھی چپ ہے جفا بھی چپ ہے

طلسم دشت نوا بھی چپ ہے

فصیل شہر انا بھی چپ ہے

زبان خلق خدا بھی چپ ہے

مگر لہو ہے کہ بولتا ہے

خزاں نصیبوں پہ بین کرتی ہوئی ہوائیں

جنون و خوں کی مہک سے لبریز یہ فضائیں

سماعتوں میں شگاف کرتی ہوئی صدائیں

بتا رہی ہیں

انا کے خوں ناب آنسوؤں میں

وفا کے سب خواب بجھ گئے ہیں

(745) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Tariq Qamar. is written by Tariq Qamar. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Tariq Qamar. Free Dowlonad  by Tariq Qamar in PDF.