سسکتی مظلومیت کے نام

عجب فضا ہے

عجب اداسی

عجیب وحشت برس رہی ہے

عجب ہے خوف و ہراس ہر سو

عجیب دہشت برس رہی ہے

عجب گھٹن ہے عجب تعفن

میں کس جگہ کس دیار میں ہوں

کہ جیسے مقتل میں آ گیا ہوں

میں قاتلوں کے حصار میں ہوں

پھٹی پھٹی سی یہ سرخ آنکھیں

سنہرے خوابوں کو رو رہی ہیں

گناہ کیسے ہوئے ہیں سرزد

یہ کن عذابوں کو رو رہی ہیں

عجب طرح کا یہ امتحاں ہے

غم و الم کا یہ اک جہاں ہے

لہو سے تحریر داستاں ہے

جراحتوں کے جوان سینے فگار کیوں ہیں

یہ بچے بوڑھے شکار کیوں ہیں

جوان لاشوں پہ بین کرتی ہوئی یہ مائیں

گھٹی گھٹی سی یہ سسکیاں اور ستم کے ماروں کی یہ صدائیں

لہو کا صدقہ اتارتی ہیں

فلک کی جانب نظر اٹھائے نہ جانے کس کو پکارتی ہیں

یہ بے گھری ہے نصیب کس کا

یہ کون خیموں میں رو رہا ہے

مزاج بدلا ہے آسماں نے

کہ جو نہ ہونا تھا ہو رہا ہے

سوال کرتی ہے آدمیت

یہ انتہا پر جنون کیوں ہے

کہ آستینوں پہ قاتلوں کی

یہ بے گناہوں کا خون کیوں ہے

خموش ہیں اب

لہو کو پانی بنانے والے

حقیقتوں کو بھی اک کہانی بتانے والے

صداقتوں کو چھپانے والے

انہیں بتاؤ کہ یہ رعونت نہیں رہے گی

یہ تاج سر پر نہیں رہیں گے

یہ جاہ و حشمت نہیں رہے گی

سحر کے امکان ہو رہے ہیں

یہ شب یہ ظلمت نہیں رہے گی

(834) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Tariq Qamar. is written by Tariq Qamar. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Tariq Qamar. Free Dowlonad  by Tariq Qamar in PDF.