ماں

کس نے ان آہنی دروازوں کے پٹ کھول دئیے

کس نے خوں خوار درندوں کو یہاں چھوڑ دیا

کس نے آنچل پہ مرے ڈال دئیے انگارے

ٹھیک سے کٹنے بھی نہ پایا تھا طوق گردن

ابھی تو صدیوں کا پامال تھا میرا خرمن

اس پہ ان وحشی لیٹروں نے سیہ کاروں نے

میرے ارمانوں کو تاراج کیا لوٹ لیا

میرے معصوموں کو بے خانہ و برباد کیا

میری بہوؤں سے ہوس خانوں کو آباد کیا

جل گیا میرا چمن لٹ گیا سب میری بہار

میرے بربط میں کوئی تار نہیں اب ثابت

میری چیخوں میں کوئی درد نہیں اب باقی

میرے پیارو مری چھاتی سے لپٹنے والو

آگ وہ دل میں لگی ہے کہ میں ہی جانتی ہوں

یوں مری کوکھ جلی ہے کہ میں ہی جانتی ہوں

میرے بچو مری ناموس کے پہرے دارو

دیکھو نیزوں پہ تمہارے ہیں یہ کس کی لاشیں

تم نے خود لوٹ لیا اپنی ہی بہنوں کا سہاگ

مانگ میں جھونک دی سندور کی جگہ تم نے آگ

شرم سے اب تو ہوئی جاتی ہے گردن مری خم

پانی پانی ہوا جاتا ہے مصور کا قلم

یہ ترا بیت مقدس تری رفعت کا مزار

کس کی منحوس نگاہوں کا بنا آج شکار

کیا ہوئے میرے وہ منصوبے وہ خواب فردا

جل گیا میرا چمن لٹ گئی سب میری بہار

میرے بربط میں کوئی تار نہیں اب ثابت

میری چیخوں میں کوئی درد نہیں اب باقی

(565) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Wamiq Jaunpuri. is written by Wamiq Jaunpuri. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Wamiq Jaunpuri. Free Dowlonad  by Wamiq Jaunpuri in PDF.