جہاں میرے نہ ہونے کا نشاں پھیلا ہوا ہے

جہاں میرے نہ ہونے کا نشاں پھیلا ہوا ہے

سمجھتا ہوں غبار آسماں پھیلا ہوا ہے

میں اس کو دیکھنے اور بھول جانے میں مگن ہوں

مرے آگے جو یہ خواب رواں پھیلا ہوا ہے

انہی دو حیرتوں کے درمیاں موجود ہوں میں

سر آب یقیں عکس گماں پھیلا ہوا ہے

رہائی کی کوئی صورت نکلنی چاہئے اب

زمیں سہمی ہوئی ہے اور دھواں پھیلا ہوا ہے

کوئی اندازہ کر سکتا ہے کیا اس کا کہ آخر

کہاں تک سایۂ عہد زیاں پھیلا ہوا ہے

کہاں ڈوبے کدھر ابھرے بدن کی ناؤ دیکھیں

کہ اتنی دور تک دریائے جاں پھیلا ہوا ہے

میں دل سے بھاگ کر جا بھی کہاں سکتا ہوں آخر

مرے ہر سو یہ دشت بے اماں پھیلا ہوا ہے

مجھے کچھ بھی نہیں معلوم اور اندر ہی اندر

لہو میں ایک دست رائیگاں پھیلا ہوا ہے

ظفرؔ اب کے سخن کی سر زمیں پر ہے یہ موسم

بیاں غائب ہے اور رنگ بیاں پھیلا ہوا ہے

(1073) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Jahan Mere Na Hone Ka Nishan Phaila Hua Hai In Urdu By Famous Poet Zafar Iqbal. Jahan Mere Na Hone Ka Nishan Phaila Hua Hai is written by Zafar Iqbal. Enjoy reading Jahan Mere Na Hone Ka Nishan Phaila Hua Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Zafar Iqbal. Free Dowlonad Jahan Mere Na Hone Ka Nishan Phaila Hua Hai by Zafar Iqbal in PDF.