کوئی کنایہ کہیں اور بات کرتے ہوئے

کوئی کنایہ کہیں اور بات کرتے ہوئے

کوئی اشارہ ذرا دور سے گزرتے ہوئے

مرے لہو کی لپک میں رہے وہ ہاتھ وہ پانو

کچھ آئنے سے کہیں ڈوبتے ابھرتے ہوئے

شرار بوسہ ہی اس سنگ لب سے ہو پیدا

کہ میرے سر میں کئی لفظ ہیں ٹھٹھرتے ہوئے

نہ سخت گیر تھا وہ اور نہ میں ہی بے ہمت

پر اس کو ہاتھ لگایا ہے آج ڈرتے ہوئے

جلائیں گے نم ساحل پہ کشتیاں اپنی

اس آب زار تماشا میں پانو دھرتے ہوئے

گزر ہی جائے گی سر سے کہیں تو موج ہوس

کبھی تو شرم اسے آئے گی مکرتے ہوئے

حواس میں ہیں کہیں خوف کے نشیب و فراز

جو خود سے بھاگتا ہوں راہ میں ٹھہرتے ہوئے

یہ کام اور تو اب کون ہی کرے گا یہاں

سمیٹتا بھی رہوں جسم کو بکھرتے ہوئے

مجھے تو رنج تھا سب سے کہیں زیادہ ظفرؔ

جو دیکھ لیتا مری سمت بھی وہ مرتے ہوئے

(1067) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Koi Kinaya Kahin Aur Baat Karte Hue In Urdu By Famous Poet Zafar Iqbal. Koi Kinaya Kahin Aur Baat Karte Hue is written by Zafar Iqbal. Enjoy reading Koi Kinaya Kahin Aur Baat Karte Hue Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Zafar Iqbal. Free Dowlonad Koi Kinaya Kahin Aur Baat Karte Hue by Zafar Iqbal in PDF.