نہ اس کو بھول پائے ہیں نہ ہم نے یاد رکھا ہے

نہ اس کو بھول پائے ہیں نہ ہم نے یاد رکھا ہے

دل برباد کو اس طرح سے آباد رکھا ہے

جھمیلے اور بھی سلجھانے والے ہیں کئی پہلے

اور اس کے وصل کی خواہش کو سب سے بعد رکھا ہے

رکا رہتا ہے چاروں سمت اشک و آہ کا موسم

رواں ہر لحظہ کاروبار ابر و باد رکھا ہے

پھر اس کی کامیابی کا کوئی امکان ہی کیا ہو

اگر اس شوخ پر دعویٰ ہی بے بنیاد رکھا ہے

خزاں کے خشک پتے جس میں دن بھر کھڑکھڑاتے ہیں

اسی موسم کا نام اب کے بہار ایجاد رکھا ہے

یہ کیا کم ہے کہ ہم ہیں تو سہی فہرست میں اس کی

بھلے نا شاد رکھا ہے کہ ہم کو شاد رکھا ہے

جسے لفظ محبت کے معانی تک نہیں آتے

اسے اپنے لیے ہم نے یہاں استاد رکھا ہے

جواب اپنے کو چاہے جو بھی وہ ملبوس پہنائے

سوال اس دل نے اس کے آگے مادر زاد رکھا ہے

ظفرؔ اتنا ہی کافی ہے جو وہ راضی رہے ہم پر

کمر اپنی پہ کوئی بوجھ ہم نے لاد رکھا ہے

(1321) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Na Usko Bhul Pae Hain Na Humne Yaad Rakkha Hai In Urdu By Famous Poet Zafar Iqbal. Na Usko Bhul Pae Hain Na Humne Yaad Rakkha Hai is written by Zafar Iqbal. Enjoy reading Na Usko Bhul Pae Hain Na Humne Yaad Rakkha Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Zafar Iqbal. Free Dowlonad Na Usko Bhul Pae Hain Na Humne Yaad Rakkha Hai by Zafar Iqbal in PDF.