گل چاندنی

کل شام یاد آیا مجھے!

ایسے کہ جیسے خواب تھا

کونے میں آنگن کے مرے

گل چاندنی کا پیڑا تھا

میں ساری ساری دوپہر

سائے میں اس کے کھیلتی

پھولوں کو چھو کر بھاگتی

شاخوں سے مل کر جھولتی

اس کے تنے میں بیسیوں!

لوہے کہ کیلیں تھیں جڑی

کیلوں کو مت چھونا کبھی

تاکید تھی مجھ کو یہی!

یہ راز مجھ پہ فاش تھا

اس پیڑ پر آسیب تھا!

اک مرد کامل نے مگر

ایسا عمل اس پر کیا

باہر وہ آ سکتا نہیں!!

کیلوں میں اس کو جڑ دیا

ہاں کوئی کیلوں کو اگر

کھینچے گا اوپر کی طرف!

آسیب بھی چھٹ جائے گا

پھولوں کو بھی کھا جائے گا

پتوں پہ بھی منڈلائے گا

پھر دیکھتے ہی دیکھتے

یہ گھر کا گھر جل جائے گا

اس صحن جسم و جاں میں بھی

گل چاندنی کا پیڑ ہے!

سب پھول میرے ساتھ ہیں

پتے مرے ہم راز ہیں

اس پیڑ کا سایہ مجھے!

اب بھی بہت محبوب ہے

اس کے تنے میں آج تک

آسیب وہ محصور ہے

یہ سوچتی ہوں آج بھی!

کیلوں کو گر چھیڑا کبھی

آسیب بھی چھٹ جائے گا

پتوں سے کیا لینا اسے

پھولوں سے کیا مطلب اسے

بس گھر مرا جل جائے گا

کیا گھر مرا جل جائے گا؟

(1333) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Gul-chandni In Urdu By Famous Poet Zehra Nigaah. Gul-chandni is written by Zehra Nigaah. Enjoy reading Gul-chandni Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Zehra Nigaah. Free Dowlonad Gul-chandni by Zehra Nigaah in PDF.