تسلسل

بزم خواہش کے نو واردو

تم نہیں جانتے

کیسے آہستہ آہستہ جسموں کے اندر رگوں تک

پہنچتے ہیں پت جھڑ کے ہاتھ

کیسے سرما کی شام

ڈھانپ لیتی ہے کہرے کی چادر میں منظر تمام

کیسے گزری ہوئی زندگی

دستکیں دیتی رہتی ہے دل پر

مگر جب پکاریں تو رم خوردہ رویا کے مانند

دوری کی سرحد کے اس پار آتی نہیں

کیسے بچھڑے ہوئے دوستوں کا خیال

دھندلی آنکھوں میں رہتا ہے روکے ہوئے آنسوؤں کی مثال

تم جہاں ہو وہاں پھول رت ہے ابھی

ریشمی خوشبوؤں میں بسی چاہتیں ہیں وہاں

اور روشن ہیں آنکھوں میں دنیا بدلنے کے خواب

تم ہمارے شب و روز کے آئنے ہو

وہ چہرے تمہارے خد و خال سے جھانکتے ہیں

جو مدت ہوئی ہم سے ایک ایک کر کے جدا ہو گئے

زمانہ ہوا

سر زمین تمنا پہ فصل گل آنے کو تھی

ہم دم صبح کلیاں چٹکنے کی آواز کے منتظر تھے

کہ اک سرسراہٹ ہوئی

زیر شاخ گل افعی کا سایہ سا ابھرا

تم اے طائران نخوردہ گزند

اس سے واقف نہیں

کیسے زخموں سے بے حال تھی زندگی

کیسے آتش فشاں پھٹ پڑے

کس طرح ان کے لاوے ہیں انسانیت بہہ گئی

وہ جو رخصت ہوئے

جو اندھیروں میں حق کے علم لے کے نکلے تھے

زنداں سے ان کے سلاسل کی آواز تو ہم تک آئی تھی

لیکن پلٹ کر وہ آئے نہیں

ہم کہاں سے کہاں آ گئے ہیں مگر

اب بھی دستور دنیا وہی ہے کہ تھا

جنگ کا جھوٹ کا جبر کا جور کا

اب بھی عالم میں چرچا وہی ہے کہ تھا

اے جہاں کو بدلنے کے خواہاں جوانو سنو

وقت کے چاک پر گیلی مٹی کے مانند ہے آدمی

ہم بدلتے ہیں دنیا بدلتی نہیں

ہم بدلتے ہیں لیکن یہ دنیا جو ہر دم نئی ہے بدلتی نہیں

ہم کہ اپنی شکستوں کی آواز ہیں

اپنے خوابوں پہ نادم نہیں

اس سے پہلے کہ چپ چاپ آ لے تمہیں

وقت کا راہزن

جو تمہارے لہو میں تمہارے تنفس میں روپوش ہے

دونوں ہاتھوں سے اپنی مہکتی ہوئی چاہتیں تھام لو

دل کی دولت کو اک دوسرے پر نچھاور کرو

اور آنکھوں میں خوابوں کو روشن رکھو

(1441) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Tasalsul In Urdu By Famous Poet Zia Jalandhari. Tasalsul is written by Zia Jalandhari. Enjoy reading Tasalsul Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Zia Jalandhari. Free Dowlonad Tasalsul by Zia Jalandhari in PDF.