دیوار چین

کہاں سے پھیلا ہوا ہے یہ سلسلہ کہاں تک

گزر گیا سیل ہمتوں کا

بنا کے یہ کوس کوس صدیوں کی رہ گزر سی

پہاڑ چلا چڑھی کمانوں سے تیر پھینکیں

تو آسماں گر پڑے زمیں پر

رواں دواں وقت کے بہاؤ میں

ایک لمبی دراڑ جیسے پڑی ہوئی ہے

عظیم دیوار سر اٹھائے کھڑی ہوئی ہے

جھکے ہوئے آسمان کے نیچے

جو اس صحیفے کو عکس در عکس بانٹتا ہے

یہ رزمیہ جو لہو کی شفاف روشنی سے

لکھا گیا ہے

زمیں پہ چنگاریاں اڑاتے ہوئے وہ آئے

جو بازوؤں سے بلندیوں کا خراج

لیتے رہے

شکم کو اناج دے کر

مشقتیں جن کی باندیاں تھیں

لہو کے نمکین ذائقے

رقص کرتے رہتے تھے

جن کے ہونٹوں کے آستاں پر

کڑکتی آواز جبر کے چابکوں کی بجلی

انہی پہاڑوں پہ کوندتی تھی

یہیں پہ محنت کے نقش گر نے

لہو کے پانی میں سنگ گوندھے

صدائے تیشہ اٹھی تو کوہوں سے پھوٹ نکلیں

بقا کی نہریں

زمیں کو اس کی بلندیوں کی طرف اٹھایا

افق کو باندھا افق سے اس نے

قدیم قوت کے رخش نے دس ہزار لی مسافتوں میں

فنا کے تاتاریوں کے لشکر کو مات دے دی

یہیں پہ محنت کے نقش گر نے

سلوں کو پہنا دیے سلاسل

بٹے ہوئے خود گرفت قلعوں کی باڑ توڑی

اسی نے کوہوں کے سر پہ گاڑھا

ہزیمتوں نصرتوں کا پرچم

کشود کر کے جسے اڑایا

کئی زمانوں کے وارثوں نے

جو اڑ رہا ہے

نشیب کو آسماں کی جانب اڑا رہا ہے

جو کل کو کل سے ملا رہا ہے

(1276) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Diwar-e-chin In Urdu By Famous Poet Aftab Iqbal Shamim. Diwar-e-chin is written by Aftab Iqbal Shamim. Enjoy reading Diwar-e-chin Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Aftab Iqbal Shamim. Free Dowlonad Diwar-e-chin by Aftab Iqbal Shamim in PDF.