دن گزرتا ہے کہاں رات کہاں ہوتی ہے

دن گزرتا ہے کہاں رات کہاں ہوتی ہے

درد کے ماروں سے اب بات کہاں ہوتی ہے

ایک سے چہرے تو ہوتے ہیں کئی دنیا میں

ایک سی صورت حالات کہاں ہوتی ہے

زندگی کے وہ کسی موڑ پہ گاہے گاہے

مل تو جاتے ہیں ملاقات کہاں ہوتی ہے

آسمانوں سے کوئی بوند نہیں برسے گی

جلتے صحراؤں میں برسات کہاں ہوتی ہے

یوں تو اوروں کی بہت باتیں سنائیں ان کو

اپنی جو بات ہے وہ بات کہاں ہوتی ہے

جیسی آغاز محبت میں ہوا کرتی ہے

ویسی پھر شدت جذبات کہاں ہوتی ہے

پیار کی آگ بنا دیتی ہے کندن جن کو

ان کے ذہنوں میں بھلا ذات کہاں ہوتی ہے

(938) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Din Guzarta Hai Kahan Raat Kahan Hoti Hai In Urdu By Famous Poet Ahmad Rahi. Din Guzarta Hai Kahan Raat Kahan Hoti Hai is written by Ahmad Rahi. Enjoy reading Din Guzarta Hai Kahan Raat Kahan Hoti Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ahmad Rahi. Free Dowlonad Din Guzarta Hai Kahan Raat Kahan Hoti Hai by Ahmad Rahi in PDF.