دھوپ ہو گئے سائے جل گئے شجر جیسے

دھوپ ہو گئے سائے جل گئے شجر جیسے

جم گئی فضاؤں میں اب کے دوپہر جیسے

زیست کے خرابے میں اک سیاہ گھر دل کا

اور دل میں یاد اس کی روشنی کا در جیسے

کیسے کیسے ہنگامہ گھیرے رکھتے تھے دن رات

لگ گئی نگاہوں کو اپنی ہی نظر جیسے

یا تو آنے سے پہلے گھر کا پوچھتے احوال

آ گئے تو اب کیجے ہو گزر بسر جیسے

ایسے تکتا رہتا ہوں اس گلی کے لوگوں کو

لے کے آئے گا کوئی میری بھی خبر جیسے

مدتوں میں گزرا تھا اس کے شہر سے لیکن

سب مکان لگتے تھے اب بھی اس کے گھر جیسے

نقش گاہ ہستی میں دیکھی اپنی بھی تصویر

ایک کاغذ سادہ آنسوؤں سے تر جیسے

چاہتی ہے اب وحشت دور تک بیابانی

کاٹنے کو آتے ہیں گھر کے بام و در جیسے

مجھ سے کیا سہے جاتے ان کی بزم کے آداب

اشک مانگتے تھے وہ اشک بھی گہر جیسے

میں بھی کتنا سادہ ہوں رہ گزر پہ بیٹھا ہوں

روک لے گا وہ پاؤں مجھ کو دیکھ کر جیسے

میری خواہشیں انجمؔ جیسے ناچتی پریاں

میرا سارا مستقبل خواب کا نگر جیسے

(938) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Dhup Ho Gae Sae Jal Gae Shajar Jaise In Urdu By Famous Poet Anwar Anjum. Dhup Ho Gae Sae Jal Gae Shajar Jaise is written by Anwar Anjum. Enjoy reading Dhup Ho Gae Sae Jal Gae Shajar Jaise Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Anwar Anjum. Free Dowlonad Dhup Ho Gae Sae Jal Gae Shajar Jaise by Anwar Anjum in PDF.