شیکسپئیر

اس طرح آج پھر آباد ہے ویرانۂ دل

کہ ہے لبریز مئے شوق سے پیمانۂ دل

دل بے تاب میں پنہاں ہے ہر ارمان نظر

چشم مشتاق میں ہے سرخیٔ افسانۂ دل

آج شمعوں سے یہ کہہ دو کہ خبردار رہیں

آج بے دار ہے خاکستر پروانۂ دل

اس کو ہے ایک فقط دیکھنے والا درکار

طور سے کم تو نہیں جلوۂ جانانۂ دل

جاگ بھی خواب سے اے مشرق و مغرب کے حکیم

کہ ترے واسطے لایا ہوں میں نذرانۂ دل

یہ ذرا دیکھ کہ آئے ہیں کہاں سے دونوں

دل تری خاک کا دیوانہ میں دیوانۂ دل

شوق کی راہ میں اک سخت مقام آیا ہے

مرا ٹوٹا ہوا دل ہی مرے کام آیا ہے

ساقیٔ جاں ترے مے خانے کا اک رند حقیر

مثل بو توڑ کے ہر قید مقام آیا ہے

اللہ اللہ تری بزم کا یہ عالم کیف

میرے ہاتھوں میں چھلکتا ہوا جام آیا ہے

ترے نام آج زمانے کے مہکتے ہوئے پھول

غالبؔ و میرؔ کے گلشن کا سلام آیا ہے

وہ مری حسرت دیرینہ کا شہباز جلیل

کتنی مدت میں بالآخر تہہ دام آیا ہے

تجھ کو بھی دل میں بسایا ہے جو اقبالؔ کے ساتھ

تو کہیں جا کے یہ انداز کلام آیا ہے

کیوں تجھے یہ ابدی نیند پسند آئی ہے

اے کہ ہر لفظ ترا شان مسیحائی ہے

ساقی مے کدۂ زیست ذرا آنکھ تو کھول

تری تربت پہ سیہ مست گھٹا چھائی ہے

جاگ بھی خواب سے دل دادۂ گل زار و چمن

کہ ترے دیس کی باغوں پہ بہار آئی ہے

جو ترے گھر میں ہے آج اس چمنستاں کو تو دیکھ

ذرے ذرے کو جنون چمن آرائی ہے

ہاتھوےؔ کا ہے مکاں وہ کہ ''مقام نو'' ہے

جو بھی خطہ ہے وہ اک پیکر زیبائی ہے

کچھ خبر بھی ہے کہ ایواں کی حسیں موجوں میں

جو ترے دور میں تھی اب بھی وہ رعنائی ہے

وہ ترا نغمہ کہ سینوں میں تپاں آج بھی ہے

اہل احساس کا سرمایۂ جاں آج بھی ہے

رند ہیں مشرق و مغرب میں اسی کے مشتاق

وہ ترا بادۂ کہنہ کہ جواں آج بھی ہے

آج بھی کعبۂ ارباب نظر ہے تری فکر

ورثۂ اہل جنوں تیرا بیاں آج بھی ہے

آج سے چار صدی قبل جو چمکا تھا کبھی

ترے نغمات میں وہ سوز نہاں آج بھی ہے

جس میں ہے بادہ جنوں کا بھی مئے ہوش کے ساتھ

ترے ہاتھوں میں وہی رطل گراں آج بھی ہے

تو نے تمثیل کے جادے پہ دکھایا جو کبھی

وہی میل اور وہی سنگ نشاں آج بھی ہے

ظلمت دہر کی راتوں میں سحر بار ہے تو

زیست اک قافلہ ہے قافلہ سالار ہے تو

تو ہر اک دور میں ہے دیدۂ بینا کی طرح

ہر زمانے میں دل زندہ و بے دار ہے تو

جس کی باتوں میں دھڑکتا ہے دل عصر رواں

آج تمثیل زمانہ کا وہ کردار ہے تو

کیوں نہ ہو لوح و قلم کو ترے اسلوب پہ ناز

حسن گفتار ہے گنجینۂ افکار ہے تو

بزم جاناں ہو تو انداز ترا پھول کی شاخ

ظلم کے سامنے شمشیر جگر دار ہے تو

تو کسی ملک کسی دور کا فن کار نہیں

بلکہ ہر ملک کا ہر دور کا فن کار ہے تو

(810) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Shakespeare In Urdu By Famous Poet Jagan Nath Azad. Shakespeare is written by Jagan Nath Azad. Enjoy reading Shakespeare Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Jagan Nath Azad. Free Dowlonad Shakespeare by Jagan Nath Azad in PDF.