تلخ و ترش

کیوں مری تلخ نوائی سے خفا ہوتے ہو

زہر ہی مجھ کو ملا زہر پیا ہے میں نے

کوئی اس دشت جنوں میں مری وحشت دیکھے

اپنے ہی چاک گریباں کو سیا ہے میں نے

دیر و کعبہ میں جلائے مری وحشت نے چراغ

میری محراب تمنا میں اندھیرا ہی رہا

رخ تاریخ پہ ہے میرے لہو کا غازہ

پھر بھی حالات کی آنکھوں میں کھٹکتا ہی رہا

میں نے کھینچی ہے یہ مے میں نے ہی ڈھالے ہیں یہ جام

پر ازل سے جو میں پیاسا تھا تو پیاسا ہی رہا

یہ حسیں اطلس و کم خواب بنے ہیں میں نے

میرے حصہ میں مگر دور کا جلوہ ہی رہا

مجھ پہ اب تک نہ پڑی میرے مسیحا کی نظر

میرے خوابوں کی یہ بے چین زلیخائیں ہیں

جن کو تعبیر کا وہ یوسف کنعاں نہ ملا

میں نے ہر لہجہ میں لوگوں سے کہی بات مگر

جو مری بات سمجھتا وہ سخنداں نہ ملا

کفر و اسلام کی خلوت میں بھی جلوت میں بھی

کوئی کافر نہ ملا کوئی مسلماں نہ ملا

میرے ماتھے کا عرق ڈھلتا ہے ٹکسالوں میں

پر مری جیب مرے ہاتھ سے شرمائی ہے

کبھی میں بڑھ کے تھپک دیتا ہوں رخسار حیات

زندگی بیٹھ کے مجھ کو کبھی سمجھاتی ہے

رات ڈھلتی ہے تو سناٹے کی پگڈنڈی پر

اپنے خوابوں کے تصور سے حیا آتی ہے

کیوں مری تلخ نوائی سے خفا ہوتے ہو

میری آواز کو یہ زہر دیا ہے کس نے

(571) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Rahi Masoom Raza. is written by Rahi Masoom Raza. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Rahi Masoom Raza. Free Dowlonad  by Rahi Masoom Raza in PDF.