کہاں پہ بچھڑے تھے ہم لوگ کچھ پتہ مل جائے

کہاں پہ بچھڑے تھے ہم لوگ کچھ پتہ مل جائے

تمہاری طرح اگر کوئی دوسرا مل جائے

ہزاروں نقش نہاں ہوں گے اس کے سینے میں

کبھی کبھی تو یہ آئینہ بولتا مل جائے

جلو میں لے کے چلیں سارے ناتمام سے خواب

نہ جانے کس جگہ عمر گریز پا مل جائے

نہ جانے کیا کرے امروز کا یہ سناٹا

ہمارے ماضی کا اک لمحہ چیختا مل جائے

شکست و ریخت کی دنیا میں ہوں تو خواہش ہے

خیال بکھرا ہوا جسم ٹوٹتا مل جائے

میں نذر کر دوں اسے یہ لہولہان بدن

فریب خوردہ عقیدت کا قافلہ مل جائے

اگرچہ حد نظر تک دھواں دھواں ہے فضا

اسی دیار میں ممکن ہے پھر صباؔ مل جائے

(451) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Saba Jayasi. is written by Saba Jayasi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Saba Jayasi. Free Dowlonad  by Saba Jayasi in PDF.