آہستہ بولیے گا تماشا کھڑا نہ ہو

آہستہ بولیے گا تماشا کھڑا نہ ہو

بیرون خواب کوئی ہمیں سن رہا نہ ہو

دیواریں اٹھ گئی نہ ہوں دشت جنون میں

رم خوردہ وہ غزال کہیں گمشدہ نہ ہو

رخت سفر میں باندھ لیں پر شور کچھ بھنور

دریا ہے پر سکون سفر بے مزہ نہ ہو

یوں تو وہ ایک عام سا پتھر ہے میل کا

لیکن وہاں سے آگے اگر راستہ نہ ہو

مسجد پکارتی رہی حی علی الفلاح

جیسے ہمارا اپنا کوئی فلسفہ نہ ہو

ہم کاٹ دیں گے عمر کی زنجیر ایک دن

ہم زاد کرب دید سے شاید رہا نہ ہو

اک چاند مجھ کو تاکتا رہتا ہے ان دنوں

جیسے سوائے میرے کوئی آئینہ نہ ہو

ہنس ہنس کے اس سے باتیں کیے جا رہے ہو تم

صابرؔ وہ دل میں اور ہی کچھ سوچتا نہ ہو

(555) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Sabir. is written by Sabir. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Sabir. Free Dowlonad  by Sabir in PDF.