چاہے ہمارا ذکر کسی بھی زباں میں ہو

چاہے ہمارا ذکر کسی بھی زباں میں ہو

کچھ حسرتوں کی بات بھی رسم بیاں میں ہو

آئے تو اس وقار سے اب کے عذاب ہجر

شرمندہ یہ بہار بھی اب کے خزاں میں ہو

رکھا ہے زندگی کو بھی ہر حال میں عزیز

جب کہ عذاب زیست بھی اپنے گماں میں ہو

نکلوں تری تلاش میں جب آسمان پر

صدمہ مرے خیال کو دونوں جہاں میں ہو

رسم جنوں کا باب ہے اول و آخری

لکھا نصاب دل تو کسی بھی زباں میں ہو

یہ تیرا حسن ظن تھا کہ دل کام آ گیا

ورنہ تو اس کا ذکر بھی کار زیاں میں ہو

کچھ لوگ تھے سفر میں مگر ہم زباں نہ تھے

ہے لطف گفتگو کا جو اپنی زباں میں ہو

بیٹھا ہوں دور سائے سے اس واسطے سعیدؔ

آسودگی سفر کی اسی امتحاں میں ہو

(430) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Saeed Naqvi. is written by Saeed Naqvi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Saeed Naqvi. Free Dowlonad  by Saeed Naqvi in PDF.